دنیا بھر میں بانس کی12سوسے زائداقسام کی کاشت کا رقبہ 23ہزار ہیکٹر تک پہنچ گیا،ماہرین جامعہ زرعیہ

بانس

فیصل آباد۔ 25 ستمبر (اے پی پی):جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے زرعی ماہرین نے کہا کہ دنیا بھر میں بانس کی کاشت کا رقبہ 38ملین ہیکٹر جبکہ پاکستان میں 23ہزار ہیکٹر تک پہنچ گیا نیزبانس کی 1200سے زائد اقسام کاشت کرکے فرنیچر انڈسٹری کو مزیدفروغ دیاجاسکتاہے جس سے تجارتی پیمانے پر بانس سمیت اس کی مصنوعات تیار کرکے برآمد سے قیمتی زرمبادلہ کاحصول بھی ممکن ہو سکتاہے۔

انہوں نے بتایاکہ مستقبل میں بانس کی ضرورت میں مزید اضافہ ہو گا نیز پاکستان میں بانس کی پیداوارکے حوالے سے انتہائی سازگار زمینی و موسمی وسائل موجودہیں جن سے استفادہ کرکے بھر پور مالی منافع حاصل کیاجاسکتاہے۔ انہوں نے بتایاکہ پاکستان میں مشینی انقلاب کے ذریعے بانس انڈسٹری کو فروغ دے کر اس کے کاروباری امکانات بڑھائے جا سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بانس گھاس کے طور پر اگایا جاتا ہے اور اسے دنیا کی بلند ترین گھاس کی فصل کا اعزاز حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بانس کی لمبائی سو فٹ سے زائد تک لی جا سکتی ہے جبکہ بعض ملکوں میں اسے سالن   صورت میں پکا کر بطور غذا استعمال کرنے کا رجحان بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارکیٹنگ کا نظام نہ ہونے سے بانس کی فصل کو کسانوں میں زیادہ منافع کیلئے قبولیت کی حد تک متعارف نہیں کرایا جا سکا۔

انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخواہ میں اس وقت ملک کا اکلوتا فاریسٹری کالج قائم ہے جبکہ اس قسم کے اداروں کی تمام صوبوں میں ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ لیہ میں قائم کئے جانے ولے فاریسٹ کالج کو حکومت کی جانب سے عملی جامہ پہنانے کیلئے مزید توجہ کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف پنجاب کی زرعی جامعات کے طلباوطالبات کو فاریسٹری و رینج مینجمنٹ کے ساتھ ساتھ وائلڈ لائف کے شعبے میں تحقیق کے مواقع میسر آ سکیں گے بلکہ دیگر صوبوں کے لوگوں کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ بانس کو فرنیچر سازی کے ساتھ ساتھ پلپ اور پیپر انڈسٹری کیلئے خام مال کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے نیز بانس سے بنے ہوئے گھر موسمی اثرات سے محفوظ اور زلزلے سے کم نقصان کے حامل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بانس کے ذریعے گارمنٹس، دستکاریاں، مشروبات، چارکول، سائیکلیں، کاسمیٹکس اور پردے بھی بنائے جاتے ہیں جبکہ اسے تجارتی سطح پر ان مقاصد کیلئے استعمال کر کے خطیر زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔