اقوام متحدہ۔11اکتوبر (اے پی پی):گرمی کی شدید لہروں سے افریقا کے ساحلی خطے ، جنوبی ایشیا اورخاص طور سے جنوب مشرقی ایشیا ء میں بعض علاقوں کے عملی طور پر غیر آباد ہونے کا خطرہ ہے جبکہ شدید موسم غریب ممالک کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیل سکتا ہے۔
یہ بات ریڈ کراس اور اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور ( او سی ایچ اے) کی طرف سے مشترکہ طور پر شائع ہونے والی دستاویز میں بتائی گئی ہے۔ دستاویز کے مطابق بڑھتا ہوا درجہ حرارت دنیا بھر میں انسانی تباہی کو جنم دے رہا ہےموسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والی شدید گرمی کی لہریں آنے والی دہائیوں میں دنیا کے کچھ علاقوں کو عملی طور پر ناقابل رہائش بنا سکتی ہیں۔ دنیا بھر میں شدید گرمی کی لہریں خطرناک شرح سے بڑھ رہی ہیں ۔
ان کے اثرات میں بڑے پیمانے پر آفات ، جانوں کا ضیاع، آبادی کی نقل و حرکت اور عدم مساوات میں اضافہ شامل ہیں۔اس حوالے سے زیادہ آبادی والے شہر سب سے زیادہ خطرناک علاقوں میں شامل ہیں، اقوام متحدہ نے 2050 کی دہائی تک انتہائی گرمی کے حالات میں رہنے والے شہری غریب لوگوں کی تعداد میں 700 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا ہے۔ دستاویز کے مطابق سخت گرمی سے مستقبل میں ہونے والی اموات کی متوقع شرح حیران کن حد تک زیادہ ہو سکتی ہے جو صدی کے آخر تک کینسر یا تمام متعدی بیماریوں سے ہونے والی مجموعی اموات سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
اوسط درجہ حرارت میں اضافے اور بار بار گرمی کی لہروں سے زراعت اور مویشیوں کے نظام کو نقصان ، قدرتی وسائل کی تباہی ، بنیادی ڈھانچے کو نقصان اور نقل مکانی میں اضافے کا بھی اندیشہ ہے ، اس کے ساتھ ساتھ شدید گرم موسم کے باعث دنیا بھر میں 2030 تک معاشی نقصانات 24 کھرب ڈالر سے تجاوز کر سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق۔
شدیدگرمی کی لہریں 2003 میں یورپ میں 70 ہزار سے زیادہ اموات اور 2010 میں روس میں 55 ہزار سے زیادہ اموات کا باعث بن چکی ہیں۔دستاویز کے مطابق اس حوالے سے بدترین نتائج سے بچنے کے لیے جنگی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت جن کا مقصد ماحولیاتی تبدیلیوں کی رفتار سست کرنا اور انہیں روکنا،شدید گرمی کی لہر بارے بروقت معلومات فراہم کرنا اور گرمی کو کم کرنے والے رہائشی منصوبوں میں سرمایہ کاری سرفہرست ہونے چاہییں ۔