بچوں کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے خیبر پختونخوا حکومت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے،بیرسٹرسیف

پشاور۔8فروری (اے پی پی):وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے خیبر پختونخوا حکومت سنجیدگی سے کام کر رہی ہے اور اس ضمن میں قانون سازی کی گئی ہے، ان قوانین کے مکمل نفاذ کے لیے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی قیادت میں اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں، بچوں کے حقوق سے متعلق معاشرے میں آگہی پیدا ہوئی ہے اور اس میں ذرائع ابلاغ کا کردار اہم ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور پریس کلب میں بچوں کے حقوق سے متعلق قانون سازی پر منعقدہ ایک میڈیا بریفنگ کے دوران کیا۔ اس موقع پر ممبر صوبائی اسمبلی عائشہ بانو اور قومی کمیشن برائے حقوق اطفال کی چیئرپرسن افشاں تحسین اور کمیشن کے خیبرپختونخوا سے رکن بھی موجود تھے۔

اس موقع پر بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ قوم کے بچے ہمارے اپنے بچے ہیں، ان کے حقوق کا تحفظ اور انہیں درپیش مسائل کے حل اور چیلنجز کو دور کرنا ہماری ہی ذمہ داری ہے چونکہ بچوں کا انحصار بڑوں پر ہوتا ہے اس لیے بحیثیت اس معاشرے کے فردہماری ذمہ داری اور بڑھ جاتی ہے، بچوں کو اچھا ماحول، رہن سہن اور تعلیم سمیت تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی ہمارا فرض ہے۔

بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا سمیت وفاقی سطح پر بھی بچوں کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے بہت قانون سازی ہوئی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قوانین پر مکمل عمل درآمد ہو۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی ہدایات پر حکومت بچوں کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے حل کے لیے کام کرنے والے مختلف اداروں کے مابین مشترکہ لائحہ عمل کی تشکیل کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے، جس سے کم وسائل اور وقت صرف کیے زیادہ سے زیادہ نتائج حاصل ہو سکیں گے۔

زینب الرٹ بل کا قانون ہم نے پاس کرایا تھا اور اس کے بعد معاشرے میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے آگہی پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لیے بھی صوبائی اقدامات اٹھا رہی ہے، بچوں سے مشقت کے خاتمے میں بڑی روکاوٹ یہ ہے کہ ایسے بچے گھر کے واحد کفیل ہوتے ہیں اور اکثر والدین کی مرضی سے ورکشاپس وغیرہ پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔

انہوں نے ذرائع ابلاغ پر زور دیا کہ وہ بچوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق آگہی اجاگر کریں اور اس ضمن میں درپیش مسائل کو سامنے لائیں، میڈیا کے بغیر بچوں کے حقوق کے قوانین پر عمل درآمد ممکن نہیں۔قبل ازیں ممبر صوبائی اسمبلی عائشہ بانو نے کہا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی نے بچوں کے حوالے سے بہترین قانون سازی کی ہے، توجہ کے مستحق بچوں میں سٹریٹ چائلڈ، مشقت کرنے والے بچے، آؤٹ آف سکول بچے اور جیلوں میں موجود بچے شامل ہیں۔

کچھ عرصہ قبل متعارف زمونگ کور پروگرام کو اب بچیوں کے لیے شروع کر رہے ہیں۔ اسی طرح محکمہ محنت صوبے میں چائلڈ لیبر سے متعلق سروے کر رہا ہے جس کے بعد مشقت کرنے والے کم عمر بچوں کی صحیح تعداد معلوم ہو گی اور اس حوالے سے قانون سازی اور تدارک کے لیے اقدامات اٹھانے میں مدد ملے گی۔

دریں اثناء نیشنل کمیشن آن دی رائٹس آف چائلڈ کی چیئرپرسن افشاں تحسین کا کہنا تھا کہ اس سرکاری ادارے کو بنے دو سال ہو چکے ہیں اور اب تک 150 قریب کیسز کو نمٹایا گیا ہے۔

اس کمیشن میں تمام صوبوں کے ممبران سمیت بچوں کو بھی نمائندگی حاصل ہے۔ بنیادی طور پر اس ادارے کا کام بچوں کے حقوق، ان کی خلاف ورزی سے متعلق مانیٹرنگ اور وفاق اور صوبوں کو اس پر تجاویز فراہم کرنا ہے۔