بھارت میں مسلمانوں کے تاریخی ورثہ کو خطرہ ،انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجدکے بعد تاج محل کو بھی میلی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا

بھارت میں مسلمانوں کے تاریخی ورثہ کو خطرہ ،انتہا پسند ہندوئوں نے بابری مسجدکے بعد تاج محل کو بھی میلی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا

اسلام آباد۔6دسمبر (اے پی پی):انتہا پسند ہندوؤں نے بابری مسجد شہید کرنے کے 30 سال بعد اپنے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے تاریخی تاج محل کو میلی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے جس سے بھارت میں اسلامی ورثہ کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

وہ جھوٹے دعوے کر رہے ہیں کہ تاج محل کی ابتداء ہندو دور میں ہوئی،نریندر مودی کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک رہنما کی طرف سے دائر کی گئی حالیہ رٹ پٹیشن میں تاج محل کی “حقیقی تاریخ کا مطالعہ” کرنے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کا مقصد یونیسکو کے ثقافتی ورثے کی جگہ تاج محل کو ہندوؤں کا ورثہ قرار دینا ہے۔

ایودھیا میں بی جے پی کے میڈیا سربراہ رجنیش سنگھ نے اپنی درخواست میں یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی “سائنسی ثبوت” نہیں ہے کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تاج محل تعمیر کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ بھارتی عدالت نے ان کی اس کوشش کو ناکام بنایا تھا تاہم بی جے پی کے رہنما کئی سالوں سے غیر تاریخی دعوے دہراتے اور بڑھاتے رہے ہیں کہ تاج محل درحقیقت ایک ہندو مندر ہے، جو مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور سے بہت پہلے بنایا گیا ۔ہندوتوا کے ساتھ آر ایس ایس پورے بھارت میں مسلم حکمرانوں کی تعمیر کردہ تاریخی یادگاروں کے خلاف بیانیہ پیش کر رہی ہے۔

بی جے پی کے دور حکومت میں آر ایس ایس کے دائیں بازو کے ہندو شہروں کے نام تبدیل کرنے اور بھارت بھر میں 36,000 سے زیادہ مساجد کو مندر کی جگہ پر تعمیر کرنے کے دعویٰ کی مہم چلارہے ہیں ان شہروں میں علی گڑھ، دیوبند، فرخ آباد، بدایوں، سلطان پور، فیروز آباد اور شاہجہاں پور شامل ہیں۔ یوپی حکومت پہلے ہی فیض آباد کا نام ایودھیا اور الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر چکی ہے۔مودی کے قریبی معاون اور یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ مسلم پس منظراضلاع اور علاقوں کے نام بدل کر مسلم شناخت کو مٹانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔2017 میں ونئے کٹیار، جو اس وقت بی جے پی کے راجیہ سبھا کے رکن تھے، نے دعویٰ کیا کہ یہ یادگار درحقیقت ایک شیو مندر ہے جس کا نام ‘تیجو مہالیہ’ ہے، جسے “اصل میں” ایک ہندو حکمران نے بنایا تھا۔

تاج محل کے حالیہ واقعہ نے 6 دسمبر 1992 کو تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے زخم کو پھرتازہ کر دیا ہے۔رام جنم بھومی موومنٹ کے صدر ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں ایودھیا میں بابری مسجد کی شہادت بی جے پی اور آر ایس ایس کے اس دعویٰ کو تقویت دینا تھا کہ ایودھیا میں مندر اس جگہ پر بنایا گیا تھا جہاں ہندو دیوتا بھگوان رام کی پیدائش ہوئی تھی۔ہندو قوم پرست گروپ وشوا ہندو پریشد (آر ایس ایس کے ذیلی گروپ) کے ترجمان شری راج نائر نے کہا کہ یہ ایک بڑی کامیابی تھی۔مودی کے دوسرے دور حکومت میں بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمان کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے بری کر دیا تھا، باوجود اس حقیقت کے کہ بابری مسجد کی شہادت اخبارات اور ویڈیو زمیں ریکارڈ ہوئی ،عدالت نے کہا کہ ثبوت قابل قبول نہیں۔

ہندوتوا کے نظر یہ کے تحت قبضہ میں لی گئی بابری مسجد واحد نہیں ہے قبل ازیں 17ویں صدی کی گیانواپی مسجد جو مغل بادشاہ اورنگزیب نے تعمیر کرائی تھی پر بھی انتہا پسند ہندوئوں کا دعویٰ ہے کہ یہ وشویشور مندر کے اوپر بنائی گئی تھی جہاں 2021 میں کشیدگی اس وقت پھیلی جب پانچ خواتین نے ایک پٹیشن دائر کی اور مسجد کے اندر نماز پڑھنے کے لیے رسائی کا مطالبہ کیا ،ایک ہی پٹیشن اب بڑھ کر 15 الگ الگ درخواستوں تک پہنچ گئی ہے، جس میں بہت سے لوگوں نے مسجد کو شہید کرنے اور اس کی جگہ مندر بنانے کا مطالبہ کیا۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد اب یہی امکان ہے کہ مودی حکومت کے تحت عدالتیں ہندوؤں کے حق میں فیصلہ دیں گی۔ 1669 میں مغل شہنشاہ اورنگ زیب کے دور میں متھرا میں تعمیر کی گئی شاہی عیدگاہ مسجد کے بارے میں بھی انتہا پسند ہندو یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ یہ مسجد کیشو دیو مندر پر بنائی گئی تھی علاوہ ازیں دائیں بازو کے ہندو گروپ جامع مسجد شمسی کے متعلق بھی یہ دعویٰ کر رہے ہیں اسے نیل کانٹھ مہادیو کے مندر کو گرا کر تعمیر گیا ،بدقسمتی سے، عالمی برادری نے بھارت میں بی جے پی کی زیر قیادت ہندوتوا کی طرف سے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، بھارت میں مسلمانوں کے تاریخی ورثہ اور املاک کی حفاظت کے لئے عالمی سطح پر ٹھوس لائحہ عمل کی ضرورت ہے ۔