حکومت موسم گرما میں بجلی کی قلت پر قابوپانے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی پر عمل پیرا

اسلام آباد۔19مارچ (اے پی پی):حکومت نے موسم گرما کے دوران بجلی کی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی مرتب کی ہے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطالبات کے بعد معاشی بدحالی اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باوجود موجودہ حکومت آنے والے موسم گرما میں لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے اور صنعتوں اور عام صارفین کو شدید گرمی سے نجات دلانے کے لیے انتظامات پر بھرپور طریقے سے عمل پیرا ہے۔ توانائی شعبہ کے اقدامات کے حوالے سے اے پی پی کے پاس دستیاب دستاویزات کے مطابق بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو صنعتی، زرعی اورکاروباری شعبوں کی ترقی کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے،لیکن گھریلو صارفین کو اس کی ہموار فراہمی بھی اتنی ہی اہم ہے۔

یوکرین کی جنگ کے بعد ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور توانائی کی نئی صورتحال نے بھی پاکستان کو اپنے مقامی وسائل جیسے ہائیڈل، سولر، ونڈ اور تھر کول پر انحصاربڑھانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے اور یہی وجہ ہے درآمدی کوئلے پر انحصار کا کوئی نیا پاور پروجیکٹ نہیں بنایا گیا اور 2030 تک اپنی 60 فیصد بجلی مقامی ذرائع سے یقینی بنانے کا عزم کیا گیا ہے۔

پاور ڈویژن کے وزیر خرم دستگیر نے کہا کہ موجودہ حکومت نے پہلے ہی10 ماہ میں تھر کے کوئلے کے ذخائر سے سسٹم میں 1,980 میگاواٹ سستی بجلی شامل کی ہے اس کے علاوہ کروٹ ہائیڈرو پاور اور کے تھری نیوکلیئر پاور پلانٹس سے 720 میگاواٹ اور1100 میگاواٹ بجلی فراہم کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 2013 سے 2018 کے دوران چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کے ذریعے کامیابی کے ساتھ 10,000 میگاواٹ سے زیادہ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت کی مسلم لیگ(ن)کی حکومت کی کوششوں سے نہ صرف لوڈشیڈنگ پر قابو پایا گیا بلکہ سسٹم میں اضافی بجلی بھی موجود تھی لیکن، پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی مجرمانہ غفلت نے متعدد منصوبوں میں تاخیر کر کے ملک کو ایک بار پھر اندھیروں کی طرف دھکیل دیا۔انہوں نے بتایا کہ سی پیک کے تحت1320 میگاواٹ کے شنگھائی الیکٹرک تھر کول پراجیکٹ کے باضابطہ طور پر شروع ہونے سے تھر کول سے بجلی کی کل پیداوار 2640 میگاواٹ رہی۔ ایک اور330 میگاواٹ تھل نووا تھرکول پروجیکٹ فروری میں پہلے ہی ہم آہنگ کیا جا چکا ہے جو گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے اور بجلی کے نرخوں کو کم کرنے میں مدد کرے گا۔تھر میں کوئلے کے175 ارب ٹن کے ذخائر ہیں جو100,000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے کافی ہیں۔

اس کے علاوہ ایران سے100 میگاواٹ بجلی درآمد کرنے کے لیے بولان گوادر ٹرانسمیشن لائن بھی مکمل کر لی گئی ہےاس منصوبے سے گوادر میں بجلی کی کمی کے مسائل کو حل کیا جائے گا کیونکہ ٹرانسمیشن لائن مارچ کے وسط میں کام کرنا شروع کر دے گی۔ وزیر اعظم کے6000 میگاواٹ کے سولر انرجی پراجیکٹ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مظفر گڑھ میں600 میگاواٹ کا پہلا سولر پراجیکٹ لگانے کی تجاویز کی درخواست کی گئی ہے اور اس کی اوپن بڈنگ 17 اپریل کو ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ 150,000 صنعتی اور تجارتی صارفین کو جون تک ایڈوانسڈ میٹرنگ انفراسٹرکچر(اے ایم آئی) سسٹم میں منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ میٹروں کی24گھنٹے نگرانی کو یقینی بنا کر بجلی چوری پر قابو پایا جا سکے۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں 1-4میگاواٹ کے سولر مائیکرو گرڈ اسٹیشنوں کی تنصیب کے لیے بولی کا عمل بھی کارڈ پر ہے کیونکہ حکومت پہلے ہی سولر پینلز کی خریداری پر سیلز ٹیکس اور ڈیوٹیز کو معاف کر چکی ہے۔ لوگوں میں کم سے کم شرح سود پر سولر پینل لگانے کے لیے آسان قرضے بھی تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم کراچی میں چین کے تعاون سے مکمل ہونے والے1,100 میگاواٹ بجلی کے کے تھری نیوکلیئر پاور پلانٹ کا افتتاح کر چکے ہیں کاروباری وقت کو کم کرنے، بجلی کے ناکارہ آلات کی تبدیلی، سولرائزیشن جیسے کئی اقدامات شروع کرنے کے ساتھ سرکاری عمارتوں پر توانائی کی کھپت کو کم کرنے، آگاہی مہم اور تحفظ کی پالیسی کی منظوری دی گئی ہے۔

سرکاری اداروں کی سولرائزیشن سے ماہانہ300 سے500 میگاواٹ توانائی کی بچت ہوگی اورایندھن کے درآمدی بل میں بڑے پیمانے پر کمی ہوگی۔نیشنل انرجی کنزرویشن پلان کے تحت توانائی کے درست استعمال کو یقینی بنایا جائے گا اور ریستورانوں، ہوٹلوں اور مارکیٹوں کی جلد بندش اور دیگر اقدامات سے حکومت کو سالانہ 62 ارب روپے کی بچت میں مدد ملے گی۔ بجلی زیادہ کھپت والے پنکھوں کی پیداوار یکم جولائی سے بند کر دی جائے گی،15 ارب روپے بچانے کے لیے ایسے پنکھوں کی پیداوار پر اضافی ڈیوٹی لگائی جائے گی۔

مزید یہ کہ یکم فروری سے زیادہ بجلی کھانے والے روشنی کے بلب کی پیداوار بند کرنے سے بھی حکومت کو 22 ارب روپے کی بچت ہو رہی ہے۔ سٹریٹ لائٹس کا استعمال بھی 50 فیصد تک کم کیا جا رہا ہے جس سے 92 ارب روپے کی بچت کی امید ہے جبکہ تمام سرکاری ادارے بجلی بچانے کے لیے موثر ڈیوائسز لگائیں گے۔ سرکاری اداروں میں بجلی کی کھپت میں بھی30 فیصد کے قریب کمی کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ٹی وی اور ریڈیو چینلز کے ذریعے توانائی کی بچت کی مہم کو یقینی بنائے گی۔

حکومت نے رواں مالی سال 2022-23 کے8ماہ کے دوران سالانہ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی)کے تحت نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) اور پاکستان الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیپکو) کے مختلف منصوبوں کے لیے 48.560 بلین روپے بھی جاری کیے ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے مطابق، حکومت نے مختلف این ٹی ڈی سی/پیپکو منصوبوں کے لیے42.983 ارب روپے مختص کیے تھے جن میں20.773 ارب روپے کی غیر ملکی امداد شامل تھی۔ مختلف منصوبوں پر اب تک 42.566 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں جن میں سے دسمبر 2022 تک 35.120 ارب روپے غیر ملکی امداد کے حصے کے تحت تقسیم کیے گئے ہیں۔