سکھر۔ 26 فروری (اے پی پی):آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام دو روزہ ”پاکستان لٹریچر فیسٹیول 2025 سکھر چیپٹر II“ کے آخری روز : ”اکیسویں صدی میں پاکستانی ادب: ایک عالمی تناظر“ کے عنوان سے سیشن کا انعقاد آڈیٹوریم سکھر آئی بی اے یونیورسٹی میں کیا گیا جس میں غازی صلاح الدین، ڈاکٹر فاطمہ حسن، ضیاءالحسن موضوع سے متعلق تفصیلی گفتگو کی جبکہ نظامت کے فرائض کاشف رضا نے انجام دیے۔ اس موقع پر مقررین نے اپنی گفتگو میں کہاکہ انٹرنیشنل لٹریسی پرائز دراصل تراجم کے لیے دیا جاتا ہے اور یہ اس بار آئس لینڈ کے ایک مصنف کو ملا ہے۔
آئس لینڈ کی آبادی کراچی کے ایک محلے سے بھی کم ہے لیکن اس ایوارڈ کی وجہ سے وہاں ہلچل مچ گئی اور لوگوں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ ہمارے ملک میں بھی جو کتابیں اور لائبریریاں موجود ہیں ان میں ایسی ہی ہلچل مچانے کی ضرورت ہے، جو انگریزی مصنفین ہیں اگر وہ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں تو انہیں اردو یا اپنی دیگر مقامی زبانوں کو بھی موقع دینا چاہیے لیکن وہ زیادہ تر انگریزی میں ہی لکھتے ہیں۔
کراچی سے شروع ہونے والی عالمی کانفرنس اب پوری دنیا میں اپنا نمایاں نام بنا چکی ہے، پاکستان لٹریچر فیسٹیول کا دوسرا سال ہے ہم اس پر پوری ٹیم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ فن و ثقافت کے فروغ کے لیے بھرپور کام کررہے ہیں، آصف فرخی کی ادب کے لیے خدمات قابل تعریف ہیں، پاکستان لٹریچر فیسٹیولز میں مختلف زبانوں کے ادیبوں سے گفتگو کا بہت فائدہ ہوا ، ہم نے ان کا ادب سیکھا انہوں نے ہمارا۔مو¿منہ شمسی نے انگریزی میں عمدہ ادب شامل کیا ہے اس میں کئی حیران کن دریافتیں ہیں، 1997 میں معروف پاکستانی ادیب انگریزی میں لکھنے والے مصنفین کی تعداد 40 بڑھ کر 86 ہوچکی ہے۔ یہ واضح تبدیلی اور انگریزی میں لکھنے والوں کی نئی لہر کی عکاسی کرتا ہے کیونکہ وہ انگریزی میں لکھتے ہیں اس لیے انہیں بلکہ ایک بین الاقوامی پہچان بھی مل جاتی ہے۔
یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ ہمارا ادب کتنا عظیم ہے اور ہمارے ادیب کتنے قابلِ قدر ہیں۔