گلگت۔13جنوری (اے پی پی):سابق صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات وممبر گلگت بلتستان اسمبلی فتح اللہ خان نے کہا ہے کہ صوبائی وزراء نے سکردو میں سیاحتی کانفرنس میں شرکت کے بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کے خصوصی احکامات پر سکردو میں دو ہفتے سے جاری دھرنے کے منتظمین سے ملاقات کی اور عوامی مشکلات کے پیش نظر انہیں اس امر پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ گندم کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا فیصلہ متوقع غذائی بحران سے نمٹنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیمیں ، گرینڈ عوامی جرگہ اور عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ ڈیڑھ مہینے کی وسیع تر مشاورت کے بعد لیا گیا ہے
اور عوام پر گندم کی قیمتوں میں ہوشربا بوجھ کم منتقل کرنے اور نئی قیمتیں ان کی قوت خرید کے عین مطابق رکھنے کیلئے صوبائی حکومت نے گندم کی سبسڈائزڈ قیمت 52 روپے فی کلو کرنے کے اولین فیصلے سے دستبردار ہوکر عوامی مطالبہ پر 36 روپے فی کلو کر دیا ہے اور اس سلسلے میں وفاق کی جانب سے دبائو کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیاہے، صوبائی حکومت اب بھی قیمت خرید سے صرف 20 فیصد رقم واپس لے رہی اور 80 فیصد سبسڈی فراہم کر رہی ہے لہذا اب نئی قیمتوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور اس میں بھی مزید کمی نہیں کی جائیگی کیونکہ صوبائی حکومت اضافی شارٹ فال خود برداشت کر رہی ہے۔
اب مشاورت سازی کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد کابینہ کے فیصلے کے تحت اب نئی قیمتوں کا باقاعدہ اطلاق پر چکا ہے اور عوام کو ریلیف بہم پہنچانے کیلئے کوٹے میں اضافے سمیت معیاری گندم کی فراہمی شروع کر دی گئی ہےلہذا اب سخت سردی میں عوام کو سڑکوں میں لانا کسی کے مفاد میں نہیں اور عوام کی مشکلات اور تکالیف میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ سبسڈائزڈ گندم کی قیمتوں میں مناسب اضافہ نہیں کیا جاتا تو تمام اضلاع کے عوام گندم کی عدم دستیابی پر سڑکوں پر ہوتے اور ہم وفاق سے بھی اضافی گرانٹ اور سبسڈی میں اضافے کا مطالبہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔
صوبائی حکومت کو عوامی مسائل کا ادراک ہے اور ریاست ہمیشہ ماں کی طرح اپنے عوام کا مفاد مقدم رکھتی ہے لیکن ملکی سطح پر گندم کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ اور ملکی سطح پر گندم کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے مناسب اضافہ ناگزیر تھا ۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ سبسڈائزڈ گندم کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں اور تمام اضلاع کے عوام کے ساتھ طویل مشاورت کی گئی اور گلگت ڈویژن اور دیامر استور ڈویژن کے عوامی حلقوں اور ایکشن کمیٹی نے بھی مشاورت سازی میں بھر پور حصہ لیا لیکن بدقسمتی سے بلتستان سے کو آڈینیشن کمیٹی کے منتظمین نے بارہا بلانے کے باوجود مشاورت سازی میں حصہ نہیں لیا اور گلگت میں وزیر اعلی گلگت بلتستان حاجی گلبر خان کی زیر صدارت مشاورت سازی کے حتمی مرحلے میں سکردو سے شرکت نہیں کی گئی لیکن چونکہ انکے ساتھ ڈویژنل اور ضلعی انتظامیہ نے مذاکرات کئے تھے لہذا انکی تجاویز کو بھی مشاورت سازی کا حصہ بنایا گیا تھا ۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہم نے دھرنے کے منتظمین کو جذبہ خیر سگالی اور عوامی نمائندوں کی حیثیت سے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ حالیہ حکومتی فیصلے پر گلگت ڈویژن اور دیامر استور ڈویژن کے عوام نے اعتماد کا اظہار کیا ہے اور معاشی حالات بہتر ہونے کی صورت میں عوام کو بھرپور ریلیف فراہم کرنے کیلئے اقدامات کرینگے۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ گندم کی قیمتوں میں مشاورت سازی کے بعد تعین شدہ قیمت 36 روپے فی کلو میں مزید کوئی کمی نہیں ہوگی اور اب ہم وفاق سے خطے کی بڑھتی ہوئے غذائی ضروریات کے پیش نظر گندم سبسڈی میں اضافہ کا مطالبہ کر رہے ہیں لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں، مذہبی تنظیموں اور عوامی حلقوں کو حکومتی کاوشوں کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ ہم اپنے اجتماعی مفادات کیلئے ایک پلیٹ فارم پر مجتمع ہو کر اپنا مقدمہ وفاق میں بہتر طور پر لڑ سکیں۔