پاکستان کے نجی شعبہ کے ساتھ کوئلے کی تجارت میں تیزی سے افغان حکومت اور عوام کو معاشی و اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے

پاکستان کے نجی شعبہ کے ساتھ کوئلے کی تجارت میں تیزی سے افغان حکومت اور عوام کو معاشی و اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے

اسلام آباد۔17جولائی (اے پی پی):پاکستان کے نجی شعبہ کے ساتھ کوئلے کی تجارت میں تیزی سے افغان حکومت اور عوام کو معاشی و اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے، دونوں ممالک کے درمیان تجارت جتنی زیادہ ہوگی اس سے مسائل کا شکار افغان معیشت کو اتنے ہی زیادہ فوائد حاصل ہوں گے، پاکستان کا نجی شعبہ اپنے پلانٹس کیلئے ایندھن کے طور پر استعمال کیلئے کوئلہ درآمد کرتا ہے، جنگ زدہ افغانستان کی حکومت اور عوام دوطرفہ تجارت کے ذریعے پیدا ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیےبہترین پوزیشن میں ہیں۔ اس وقت پاکستان کی تین کمپنیاں افغانستان کے ساتھ کوئلے کی تجارت کر رہی ہیں کیونکہ اب تک دونوں حکومتوں کے درمیان تجارت کے لیے کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا چونکہ پاکستان اور اس کا نجی شعبہ اقتصادی سرگرمیوں کے احیاء کے ذریعے اپنے افغان بھائیوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاہم دشمن عناصر اپنے مفادات کیلئے ان کوششوں کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔

حال ہی میں افغانستان میں شائع ہونے والے اخبار طلوع نیوز نے رپورٹ کیا کہ افغانستان سے تجار ت کرنے والی تینوں پاکستانی کمپنیاں پاکستان کی فوج سے متعلق ہیں اور وہ کم نرخوں پر کوئلہ خرید رہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئلے کی درآمد دونوں طرف کی نجی کمپنیاں کرتی ہیں جن کا کوئی تعلق پاکستانی حکومت یا اداروں کے ساتھ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ افغان وزارت پیٹرولیم نے بھی افغان کوئلے کی برآمد کے حوالے سے حکومت پاکستان یا کسی پاکستانی ادارے کے ساتھ کسی بھی سرکاری معاہدے کی موجودگی سے انکار کیا۔ افغان میڈیا رپورٹ غلط معلومات پر مبنی ہے اور اس میں صداقت نہیں ہے کیونکہ مذکورہ تین میں سے دو کمپنیاں نجی ملکیت میں ہیں۔

ایک سرکاری ذریعے نے بتایا کہ اس کے مسلح افواج کے ساتھ کوئی روابط نہیں ہیں۔ فی الحال، افغانستان کی کوئلے کی تجارتی منڈی اس کے سب سے بڑے ریونیو وسائل میں سے ایک ہے،جس سے عام افغانوں کو کان کنوں سے لے کر ٹرانسپورٹرز تک فائدہ پہنچ رہا ہے۔ افغان چیمبرز آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ کے مطابق کوئلے کی برآمدات میں اضافہ ملک کی سالانہ آمدنی میں اضافے کا سبب بنا۔ تاہم، کسی بھی قسم کی غلط رپورٹنگ اور بیانیے کا مقصد صرف عام لوگوں کی روزی روٹی کو نقصان پہنچانا ہے۔

افغان میڈیا کا یہ تاثر کہ پاکستان افغانستان کے قدرتی وسائل کو لوٹ رہا ہے۔ بالکل خیالی بات ہے کیونکہ کوئلے کی اس پوری تجارت میں افغانستان فائدہ میں ہے۔ افغان حکومت تمام افغان کوئلے کے تاجروں کو ٹھیکے دے رہی ہے جو کوئلہ نکالنے کے لیے تمام افغان مزدوروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ نکالا گیا کوئلہ افغانوں کی ملکیتی ٹرکوں کے ذریعے منتقل کیا جاتا ہے اور کوئلے سے لدے ٹرک افغان حکومت کو پاکستان میں داخل ہونے کے لیے ٹول ٹیکس اور ایکسپورٹ ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔

پاکستان کا نجی شعبہ افغانوں کو کوئلہ خریدنے کے لیے ادائیگی بھی کرتا ہے۔ افغان حکومت اور عوام کو ان بدعنوان سیاست دانوں کا شکار نہیں ہونا چاہیے جنہوں نے لاکھوں کمائے اور بیرون ملک فرار ہو گئے اور اب لاوارث لوگوں کے لیے خوشحالی اور ترقی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ دراصل افغان عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان مخالف پروپیگنڈہ چلانے والے اصل مجرم ہیں جو اگست 2021 سے سرگرم تھے۔ چونکہ وہ افغان عوام کو روزگارنہیں دے سکتے، اس لیے وہ افغانستان اور اس کے عوام کے تجربہ کار اور قابل اعتماد دوستوں اورحامیوں کے خلاف پروپیگنڈے میں ملوث ہیں۔

کوئلے کی برآمد نے طالبان حکومت کو آمدنی پیدا کرنے میں مدد کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، 27 مئی 2022 تک، حکام نے گزشتہ چھ مہینوں میں 16 ارب افغانی مالیت کے کوئلے کی برآمدات سےاور تقریباً 3 ارب افغانی (33.80 ملین امریکی ڈالر) کسٹمز محصولات اکٹھا کیا ہے۔ ی

ہ مالیاتی بحالی ان کیلئے خطرناک ہے جو طالبان حکومت کے خلاف متحد ہیں۔ افغانستان میں بین الاقوامی بینکنگ چینلز کے کام نہ ہونے کی وجہ سے، پاکستان کو کوئلے کی برآمدات افغان سپلائرز کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں کیونکہ وہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ مؤثر طریقے سے تجارت نہیں کر سکتے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئلے کی تجارت دشمن قوتوں/عناصر کے مخاصمانہ عزائم کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اگست 2021 کی ایک تحقیقات نے افغانستان میں کان کنی کی ایک غیر قانونی بدعنوانی کا پردہ فاش کیا جس میں ایس او ایس انٹرنیشنل ورجینیا کی کمپنی کا تعلق امریکی فوج اور انٹیلی جنس سے ہے،

مشرقی یورپ میں کام کرنے والے تحقیقاتی مراکز، میڈیا اور صحافیوں کا ایک کنسورشیم اینڈ آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ کے مطابق سابق افغان صدر اشرف غنی کے بھائی حشمت ایس او ایس آئی کی ذیلی کمپنی، سدرن ڈیولپمنٹ کے مالک ہیں۔ ایس او ایس آئی افغانستان میں بنیادی طور پرامریکی ڈی او ڈی کے لیے ایک محاذ کے طور پر کام کر رہا ہے۔ گذشتہ افغان حکومتیں اور ان کے حامی افغانستان میں خوشحالی پر ڈاکہ ڈالنےوالے اور امن کو خراب کرنے والے ہیں۔ او سی سی آرپی نے کہا کہ 2011 میں امریکی اسپیشل فورسز کی جانب سے صوبہ کنڑ میں کان کنی پر حکومت کی حامی افغان ملیشیا کے ارکان کے ساتھ غیر قانونی طور پر کام کرنے کا اقدا م کیا گیا ۔ طالبان حکومت کی طرف سے کوئلے کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ بھی تشویش کا باعث ہے جس میں کمی کا امکان ہے۔ ، اگر حفاظتی اقدامات نہ کیے گئےتو پاکستان کو کوئلے کی برآمدات میں کمی ہو گی، دونوں ممالک کے درمیان تجارت جتنی زیادہ ہوگی اس سے مسائل کا شکار افغان معیشت کو اتنے ہی زیادہ فوائد حاصل ہوں گے۔