پنجاب اورخیبر پختونخواکی حکومتیں تحلیل کرنےکی کوشش کی گئی تودونوں صوبوںمیں گورنر راج یا تحریک عدم اعتماد لاسکتے ہیں،وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ

پنجاب اور خیبر پختونخواکی حکومتیں تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی تو دونوں صوبوں میں گورنر راج یا تحریک عدم اعتماد لاسکتے ہیں، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ

اسلام آباد۔1دسمبر (اے پی پی): وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ آئین میں درج وجوہات کے بغیر اسمبلیاں توڑناپارلیمان، جمہوریت اور آئین کی توہین ہے ، پنجاب اور کے پی کے کی حکومتیں تحلیل کرنے کی کوشش کی گئی تو دونوں صوبوں میں گورنر راج یا تحریک عدم اعتماد لاسکتے ہیں، حکومتیں تحلیل ہونے کی صورت میں دو صوبوں میں فوری الیکشن یا الیکشن عام انتخابات تک موخر کرنے سمیت دیگر امور پر غور کررہے ہیں ،

آئین اور قانون کے مطابق آگے بڑھیں گے، اگر عمران خان نے واقعی حکومت سے الگ ہی ہونا ہے تو صدر مملکت کے عہدے ، سینٹ ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں سے بھی الگ ہوجائیں ، ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہورہے تھے اور نہ ہی کوئی باضابطہ معاہدہ ہوا ہے، ہماری طرف سے واضح ہے کہ ہم آئین سے بالا کوئی بات تسلیم نہیں کریں گے ۔

وہ جمعرات کو پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں ،ٹی ٹی پی کی طرف سے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنا الارمنگ اور قابل مذمت ہے ، ٹی ٹی پی کو ہمارے ہمسایہ برادر ملک افغانستا ن سے ہر قسم کی سہولیات میسر ہیں ، ان کے لئے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ٹی پی پی اگر پاکستان کے اندر دہشت گردی کرے گی تو یہ خطے کے امن کے لئے انتہائی خطرناک ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی داخلی اور خارجی سکیورٹی کے حوالے سے اعلی سطحی اجلاس میں اہم امور پر غور کیا گیا ، پاکستانی عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ دہشت گردوں کو دوبارہ سر نہیں اٹھانے دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے میں بھی دہشت گردی کے واقعات سامنے آرہے ہیں ، یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ دہشت گردی قابو سے باہر ہوگئی ہے ایسی کوئی بات نہیں ہے ، وفاقی حکومت معاملات کو اپنے ہاتھ میں لینے سے قبل صوبائی حکومتوں کےموثر کردار کی ضرورت ہے ،

اس کے لئے وفاقی حکومت ہر طرح سے پورے پاکستان بشمول آزاد کشمیر ،گلگت بلتستان سے تعاون کے لئے حاضر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور کے پی کے کی صوبائی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان معاملات کو سنجیدگی سے لیں ، جہاں وفاق کے تعاون کی ضرورت ہو تو ہماری طرف سے دیر نہیں ہوگی، صوبائی حکومتوں بالخصوص کے پی کے کو سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے ،

امن و امان کی صورتحال پر وزیراعظم کے زیر صدارت اجلاس ہوئے لیکن وزیراعلی خیبر پختونخوا کو اپنی پارٹی کی جانب سے ان اجلاسوں میں شرکت کی اجازت نہیں ملی اس کے باجود وزیر اعلی خیبر پختونخوا کو جو مدد وفاق سے درکا ہو وہ لے سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سیاست میں عمران خان نیازی اور ان کی جماعت اور پاگلوں کا جتھہ پاکستان کی سیاست میں ظہور پذیر ہوا ہے ، ان کی کوشش ہے کہ ملک میں افراتفری اور انارکی سمیت ایسے حالات پیدا کیے جائیں جن سے ملک عدم استحکام کا شکار ہوجائے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو ملکی معیشت اور امن و امان بھی عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان جب حکومت میں تھے تو کہتےتھے کہ اپوزیشن کو ہر قیمت پر صفا ہستی سے مٹانا ہے، یہ اختیار کسی انسان کو حاصل نہیں ہے لیکن اس شخص نے اس کام پر ساڑھے تین سال لگا دئیے ، کرپشن کے نام پر انتقام لیتا رہا اور خود ایسی کرپشن کی جس کی مثال نہیں ملتی ، فرح گوگی کے ذریعے بھاری رشوت لیکر تقرریاں اور تبادلے ہوتے رہے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی پراپیگنڈہ مشینری اور ون پیج بھی انھیں نہیں بچا سکا ، عمران خان کا نکتہ عروج یہ تھا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کی ،میرا نام لیکر کہتا تھا کہ تیار ہو جائو چھپنے کے لئے جگہ نہیں ،میں نے کہا کہ اسلام آباد آکر دکھائو ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کا راولپنڈی کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ پورا پنڈی اور اطراف سے لوگ آجائیں گے ،دنیا کا میڈیا پکا رہا ہوگا کہ عوام کا سمندر آگیا ہے ، لاس ایجنل کی جعلی وڈیو ان کے اذہان میں سمائی ہوئی تھی جب وہ دن آیا تو ہماری بات سچ ثابت ہوئی کہ آپ کے فتنہ اور فساد کے ایجنڈے کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے ، ماسوائے گمراہی کے شکار جیالوں کے علاوہ کوئی حمایت حاصل نہیں، جڑواں شہروں سے چار سے پانچ ہزار تھے جبکہ باہر سے آنے والے لوگوں سمیت مجموعی طور پر 20 ہزار لوگ تھے ،عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ اس شرمندگی کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معذرت کرتے اور واپس پارلیمنٹ میں آکر سیاسی روایات کے مطابق مسائل کا سیاسی حل نکالتے ، سیاستدان جب آپس میں بیٹھتے ہیں تو ڈیڈ لاک ٹوٹتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بعض مواقع اور معاملات پر مسلم لیگ ن ، جے یو آئی ایف ، پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے الیکشن سمیت دیگر امور پر مختلف رائے تھی ،ان میں اتفا ق رائے ہوا اور فیصلے تبدیل ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان ایک ہی بات کرتا ہے کہ جو میں کہہ رہا ہوں اس کو تسلیم کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ جب تک آرمی چیف تھے تو سب اچھا تھا ،ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو حرکتیں کیں ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ میں شرم اور اخلاقی قدر ہی نہیں ہے ، آپ کو کچھ لوگوں سے جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف پریس کرانا چاہتے تھے لیکن وہ انکاری ہوگئے ۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ اطلاعات ہیں کہ عمران خان 20 دسمبر سے صوبائی حکومتوں سے الگ ہوں گے ، اگر فیصلہ کر لیا ہے تو فوری طور پر اعلان کریں ،اس کا مقصد صرف ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں جو سسٹم انھیں اقتدار دے وہ سب سے اچھا اور جو انھیں اقتدار میں نہ بیٹھائے وہ غدار ہے ۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن اور اتحادی جماعتوں کے درمیان مشاورت چل رہی ہے ، اگر پنجاب اور بلوچستان اسمبلیوں کے ٹوٹنے پر دو صوبوں میں الیکشن ہوگا تو نگران حکومتیں صرف پنجاب اور کے پی کے میں ہی ہوں تو اس الیکشن کی کیا ساکھ ہوگی،اگر عمران خان جیت جائے گا تو الیکشن ٹھیک ہوگا اور اگر ہار گیا تو دھاندلی زدہ قرار دے گا ، اگر الیکشن کے بعد وہاں پر 5 سال کے لئے حکومتیں آجاتی ہیں تو باقی صوبوں کا کیا بنے گا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ قوم نے عمران خان کی حماقت کا ادراک نہ کیا سب کو نقصان ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اسمبلیاں توڑنے کا عمل کبھی بھی سیاسی جماعتوں اور ملک کے لئے سود مند ثابت نہیں ہوا اور جنہوں نے الیکشن کا بائیکاٹ ہوا اس کا بھی سیاسی جماعتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن میں جانے کے لئے پوری طرح سے تیار ہیں، کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم الیکشن سے پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں، اسمبلیوں کی مدت پوری کرنا پہلے بھی اور اب بھی ہمارا موقف ہے ، ان کا بھی یہ ہی موقف تھا کہ ایک دن پہلے بھی الیکشن نہیں ہوسکتے ۔

میرا مطالبہ ہے کہ خیبر پختونخوااور پنجاب میں اسمبلیاں توڑنے سے پہلے قومی اسمبلی کے استعفے منظوری کے لئے سپیکر کے پاس حاضر ہو جائیں تا کہ تنخواہیں، پارلیمنٹ لاجز ،منسٹر ہائوس اور مراعات بند ہوسکیں ۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی کے امور پوری طرح سے وفاقی حکومت کی نظر میں ہیں ،امن و امان کے ادارے ،مسلح افواج پوری طرح سے تیار ہیں ، ہر قسم کی صورتحال کا نہ صرف سامنا بلکہ قابو پایا جاسکتا ہے، عوام کے لئے کسی قسم کی پریشانی کی بات نہیں ہے، ہم تمام واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہیں، صوبائی حکومتوں کی ڈومین میں رہتے ہوئے کوششوں کو موثر بنایا جائے گا،

اگر بات آگے بڑھے تو کسی بھی قسم کے آپریشن میں تاخیر نہیں کی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی عدم استحکام کے لئے کوششوں کو روکنے کی کوشش کی جائے گی، قانون اور آئین کے مطابق حل کیا جائے گا ان کی بلیک میلنگ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جلسوں میں تقاریر سے اسمبلیاں نہیں توڑی جاتیں ، ہم کوشش کریں گے کہ اسمبلیوں کو توڑنے کے غیر جمہوری عمل کا حصہ نہ بنیں ، ہم آئین اور قانون میں دیئے گئے طریقہ کار کے مطابق چلیں گے ، اگر دو صوبوں میں حکومتیں تحلیل ہوئیں توصرف انہی صوبوں میں الیکشن ہوں گے ، عام انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عسکری قیادت نے دو مرتبہ پارلیمان میں آکر امن و امان بارے بریفنگ دی ، اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ جو لوگ واپس آکر سماجی دھارے کا حصہ بنیں ان سے بات کی جاسکتی ہے اس میں بھی کافی حد تک کامیابی ہوئی، اصل میں ٹی ٹی پی میں مختلف دھڑے ہیں ،ایک سے بات کرتے ہیں تو دوسرے لڑنا چاہتے ہیں، جو لوگ امن چاہتے ہیں انھیں راستہ دیا جانا چاہیے اور جو لڑنا چاہتے ہیں ان کو خلاف بھر پور جواب دیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ کے پی کے اور پنجاب اسمبلی میں عدم اعتماد یا گورنر راج میں سے ایک یا دونوں ہوسکتے ہیں، پی ٹی آئی کی طرف سے 20 دسمبر کو استعفوں کی بات کی گئی تو ہم 18 کو کوئی قدم اٹھاسکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ بطور صوبائی صدر مسلم لیگ ن یہ دعوی سے کہتا ہوں کہ ہم کسی بھی وقت ہونے والے الیکشن میں کامیابی حاصل کریں گے ،آئندہ عام انتخابات کی مہم کی قیادت محمد نواز شریف خود کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ارشد شریف سےمتعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہوچکی ہے ، اس بارے شواہد اکٹھے کیے ہیں، سپریم کورٹ میں بھی یہ رپورٹ جمع ہوجائے گی ۔ یہ فیکٹ فائنڈنگ بروقت ہوگئی ہے، اگر حقائق ریکارڈ پر نہ لائے جاتے تو شاہد یہ ضائع ہوجاتے ، ان شواہد کا ریکارڈ پر آنا تحقیقات کے عمل میں اہمیت کا حامل ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلی خیبر پختونخوا کو ان کی پارٹی اعلی سطحی اجلاس میں شرکت کی اجازت نہیں دے رہی ، انھیں باقاعدگی سے امن و امان کی صورتحال بارے اجلاس میں دعوت بھجوائی گئی ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے تو کہا تھا کہ جب عوام کا سمندر ہوگا تو ان سے پوچھیں گے کہ اسلام آباد جائیں یا نہ جائیں ، اس میں ناکامی کے بعد عمران خان نے دو صوبوں میں حکومتیں تحلیل کرنے کی بات کی ، پہلے سے ایسا کوئی فیصلہ نہیں تھا ۔

انہوں نے کہا کہ عوام فیصلہ دے کہ اس پاگل پن کے ساتھ ملک نہیں چل سکتا اور اس کے ساتھ کوئی سسٹم نہیں چل سکتا ، ووٹ کی طاقت سے یہ فیصلہ سامنے آئے گا تو معاملات درست ہوجائیں گے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی باضابطہ مذاکرات نہیں ہورہے تھے اور نہ ہی کوئی باضابطہ معاہدہ ہوا ہے، ہماری طرف سے واضح ہے کہ ہم آئین سے بالا کوئی بات تسلیم نہیں کریں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اعظم سواتی کی نئی گفتگو پر بنائے گئے مقدمے میں گرفتاری ہوئی ہے ، 29 نومبر کو کمان تبدیلی کے بعد جو باتیں اعظم سواتی نے کی ہے وہ کسی کو زیب نہیں دیتی ۔