بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں مذہبی قوم پرست گروپوں میں بڑی تعداد میں اضافہ ،معاشرتی امتیازی سلوک کی صورتحال بدترین شکل اختیار کر چکی ہے، برطانوی اراکین پارلیمنٹ

لندن۔15جنوری (اے پی پی):بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت میں مذہبی قوم پرست گروپوں میں بڑی تعداد میں اضافہ اور معاشرتی امتیازی سلوک کی صورتحال بدترین شکل اختیار کر چکی ہے، جس سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں کی مذہبی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ان خدشات کا اظہار برطانوی اراکین پارلیمنٹ نے جمعہ کو ویسٹ منسٹر ہال میں رکن پارلیمنٹ جم شینن کی زیر صدارت ایک مباحثہ کے دوران کیا گیا۔ برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اقلیتوں بالخصوص عیسائیوں، مسلمانوں اور دیگر مذہبی گروپوں کے حوالے سے بھارت میں صورتحال کو انتہائی پریشان کن قرار دیا ہے۔ رکن پارلیمنٹ جم شینن نے کہا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے 2014 ء میں ان کے انتخاب کے بعد سے ”مکمل آزادی کی یقین دہانی” کے عزم کے باوجود اقلیتوں کے خلاف کارروائیوں میں بڑے پیمانے میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بھارتی وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے تجزیئے کا حوالہ دیا ہے جس میں 2014ء اور 2017ء کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں 28 فیصد اضافہ ظاہر کیا گیا ہے اور صرف 2017ء میں 822 پرتشدد واقعات رپورٹ کئے گئے ہیں جن میں 111 افراد ہلاک اور 2384 افراد زخمی ہوئے۔ پیو ریسرچ سنٹر کی حالیہ رپورٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے دیگر ممالک کے مقابلے میں مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر سماجی منافرت اور تشدد میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وباء نے بھی مزید مسائل کو جنم دیا ہے کیونکہ مسلمانوں پر اس وائرس کو جان بوجھ کر پھیلانے کا الزام لگایا گیا ہے اور ان پر (بائیو ٹیررسٹ) حیاتیاتی دہشتگرد اور کورونا جہادی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔و انہوں نے کہا کہ اسی طرح 25 نومبر 2020 ء کو ہندوستان کی چھتیس گڑھ ریاست کے سنگا ورام گائوں میں تقریباً 100 عیسائیوں پر حملہ کیا گیا اور اس دوران ہجوم نے عیسائیوں کی مقدس کتاب بائبل کو نظر آتش کر دیا اور متاثرین پر الزام لگایا کہ وہ غیر ملکی مذہب کی پیروی کرکے مقامی ثقافت کو تباہ کررہے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ بھارت میں اقلیتوں کی نسل کشی کے معاملے پر آئندہ ہفتے بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارے نے بھارت میں 50 سال سے مقیم غریب اور محکوم طبقہ کے حامی 80 سالہ فادر سٹن سوامے کو مائو نواز باغیوں سے مبینہ روابط کے الزام میں غیر منصفانہ طور پر گرفتار کیا۔ جم شینن نے ہندوستان میں مذہب کی تبدیلی کے قوانین پر غم و غصے کا اظہار کیا، جن کے تحت کسی بھی شخص کے مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر آزادی کے حق کو سلب کیا گیا۔ مذہب یا عقیدے کے حوالے سے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کے مطابق بھارتی حکام مسلمانوں اور عیسائیوں کو مذہب تبدیل کرنے پر جبری طور پر گرفتار کرتے ہیں جبکہ ہندو مذہب اختیار کرنے پر حکام کی جانب سے کسی قسم کی مداخلت نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ رکن پارلیمنٹ سر ایڈورڈ لی گینس بورو نے کہا کہ بھارتی حکومت نے عیسائی اور مسلم مخالف رویہ اختیار کر رکھا ہے، جس کے تحت گلی محلے کی سطح پر فسادات سے شدید نقصان پہنچا ہے۔جبل پور کے بشپ جیرالڈ المیڈا نے کہا کہ یہ بات انتہائی باعث تشویش ہے کہ عیسائیوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور یہ حملے گزشتہ دس سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور ان کی سب وجہ بنیاد پرستی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے 2018ء میں جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مذہبی فسادات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، 2016ء میں ہونے والے مذہبی فسادات 703 واقعات میں 86 افراد قتل ہوئے اور 2321 افراد زخمی ہوئے اور اگلے سال 2017ء میں 822 واقعات میں 111 افراد ہلاک اور 2384 افراد زخمی ہوئے، 2017ء کے وسط اور مارچ 2019ء کے اختتام تک عیسائیوں پر ایک ہزار حملے کئے گئے۔ ناز شاہ بریڈفورڈ ویسٹ نے بھارتی مصنف اور سیاستدان ششی تھرور کے الفاظ کا حوالہ دیا جنہوں نے کہا تھا کہ مودی حکومت کے لئے یہ وقت قابل غور ہے کہ وہ ملک بھر میں نفرت کو ہوا دے کر بیرون دنیا میں بھارت کا مثبت تشخص اجاگر نہیں کر سکتی۔ رکن پارلیمنٹ سٹیفن ٹیمز ایسٹ ہیم نے کہا کہ گزشتہ دو سالوں سے عیسائیوں کے قتل عام کے حوالے سے بھارت دنیا کے بدترین ممالک کی فہرست میں دسویں نمبر پر ہے۔ رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ لنڈن گلاسگو ایسٹ نے کہا کہ 2014ء کے بعد سے بھارتی ہندو انتہاء پسندوں نے مذہبی اقلیتیوں بالخصوص عیسائیوں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عدم رواداری کا ماحول پیدا کیا۔ رکن پارلیمنٹ سٹیفن کنوک نے کہا کہ فروری 2020ء کے آخر میں بھارت کو خوفناک فرقہ وارانہ تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس کے دوران ہندوئوں کی طرف سے اقلیتی مسلمانوں کے خلاف حملوں کے نتیجے میں 53 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بحث کو سمیٹتے ہوئے ایشیاء کے لئے برطانوی وزیر نائجل ایڈمز نے کہا کہ برطانیہ سب کے لئے مذہب یا عقیدے کی آزادی کا دفاع کرنے کے لئے پرعزم ہے۔ انہوں نے دسمبر میں سیکرٹری خارجہ کے دورہ بھارت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مسئلہ کشمیر سمیت انسانی حقوق کے کئی اہم معاملات اٹھائے۔