سندھ حکومت عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، ہر پانچ سال بعد پیپلز پارٹی کے کسی ایسے شخص کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر وزیراعلیٰ ہاوس بٹھا دیا جاتا ہے جس کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین

کراچی۔13جون (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات چوہدری فواد حسین نے کہا ہے کہ سندھ حکومت عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے، ہر پانچ سال بعد پیپلز پارٹی سے کسی ایک شخص کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر وزیراعلیٰ ہاوس میں بٹھا دیا جاتا ہے، اس کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، سارا اختیار ان کے پاس ہے جو سندھ اسمبلی میں نہیں بلاول ہاوس میں بیٹھتے ہیں، سندھ کے اضلاع کو فنڈز جاری نہیں کئے جا رہے، زرداری خاندان نے سندھ اسمبلی کو مفلوج کر دیا ہے، سندھ حکومت میں اتنی اہلیت نہیں کہ وہ امن و امان کیلئے سندھ پولیس کو اپ گریڈ کر سکے، مسلم لیگ (ن) نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی مخالفت کی، انتخابی اصلاحات سے یہ دور بھاگ رہے ہیں، ن لیگ کا اگلے الیکشن میں بھی کوئی مستقبل نہیں، اگلے سات سال ان کا مستقبل یہی ہوگا کہ یہ لوگ بینر لے کر ایک کونے میں کھڑے ہوں گے جن پر لکھا ہوگا کہ حکومت نامنظور، الیکشن نا منظور، ان کو خطاطی سیکھ لینی چاہئے تاکہ بینر لکھنے کے لئے ان کا خرچ اور وقت بچ سکے، پیپلز پارٹی کے دور میں اداروں کو نیست و نابود کیا گیا، ہم نے 60 سے زائد اداروں کے سربراہان میرٹ پر لگائے، آج ادارے اپنے پاوں پر کھڑے ہو رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ ہم نے صحافیوں کے مسائل کے حل کی پوری کوشش کی، تمام صحافیوں اور ورکرز کو ادائیگیاں یقینی بنانے کیلئے ہم نے صحافتی اداروں کو بقایا جات ادا کئے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنانے کا مقصد یہی ہے کہ جن صحافیوں بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے ساتھ معاہدے کی پاسداری نہیں ہو رہی تو انہیں اس پر عمل درآمد کیلئے قانونی حق مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں کم از کم اجرت 20 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، تمام صحافتی اداروں پر لازم ہے کہ وہ اپنے ورکرز کی تنخواہوں میں اس کے مطابق اضافہ کریں۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس وقت کراچی میں ماسوائے ان علاقوں کے جہاں ریکوری کے مسائل ہیں، لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی، کے الیکٹرک کو پانچ سو میگاواٹ اضافی بجلی فراہم کی تاکہ کراچی کے شہریوں کو گرم موسم میں تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے شہریوں کو سہولت فراہم کرنے کے لئے حکومت نے خصوصی انتظامات کئے۔ چوہدری فواد حسین نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ بدقسمتی سے قوم پرست سیاست کر رہے ہیں، وہ ذوالفقار علی بھٹو شہید اور بے نظیر بھٹو شہید کی سیاست سے خود کو علیحدہ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں تعصب پھیلایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کو گزشتہ سالوں کے دوران تقریباً 16 سے 18 ارب روپے وفاق کی طرف سے ملے، صوبوں کے لئے 27 فیصد بجٹ میں حصہ رکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں چاروں صوبوں کا حصہ وفاقی حکومت کے شیئر میں بڑھے گا، اس کے تحت سندھ کو 700 ارب روپے سے 750 ارب روپے این ایف سی ایوارڈ ملے گا، جب اتنا پیسہ صوبائی حکومت کے پاس آتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے، یہاں کی حالت یہ ہے کہ 1990ءسے کراچی شہر میں پولیس کو ترقی نہیں دی جا سکی، کراچی پولیس کی حالت خراب کرنے کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بی ایریاز میں اتنے برے حالات نہیں جتنے اس وقت امن و امان کے حوالے سے کراچی میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بدین اور گھوٹکی میں گیس اور تیل کی مد میں رائلٹی کی صورت میں سندھ حکومت پیسہ وصول کر رہی ہے، آج گھوٹکی اور بدین کی حالت دیکھی جا سکتی ہے، ان اضلاع کی ترقی کے لئے سندھ حکومت نے کیا اقدامات اٹھائے۔

لاڑکانہ میں پچھلے سالوں کے دوران 90 ارب روپے خرچ ہوئے لیکن وہاں سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں صحت کا نظام تباہ و برباد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر پانچ سال بعد پیپلز پارٹی سے کسی ایک شخص کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر وزیراعلیٰ ہاوس میں بٹھا دیا جاتا ہے، اس کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا، سارا اختیار ان کے پاس ہے جو سندھ اسمبلی میں نہیں بلاول ہاوس میں بیٹھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں آرٹیکل 140 اے نافذ ہونا چاہئے جس کے تحت مقامی حکومتیں بنیں، وہ اپنے مسائل خود حل کریں بصورت دیگر اضلاع فنڈز سے محروم رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے تاریخ میں سب سے زیادہ رقم سندھ سے پلی بارگین کے کیسوں سے وصول کی۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ احسن اقبال، محسن رانجھا اور ن لیگ کی قیادت نے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی مخالفت کی، احسن اقبال کہتے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان کے مسائل کا ادراک نہیں تو میرا ان سے سوال ہے کہ نواز شریف آجکل کیا ہیں، حسن نواز، حسین نواز اور اسحاق ڈار بھی اوورسیز پاکستانیز ہیں، فرق یہ ہے کہ اوورسیز پاکستانیز بیرون ملک مزدوری کر رہے ہیں اور لٹیروں کا یہ گروہ پاکستان کا پیسہ چوری کر کے بیرون ملک لے لے گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیرون ملک سے موصول ہونے والی ترسیلات میں سے 90 فیصد ایسی رقوم ہیں جو 500 ڈالر سے کم ہیں، یہ لیبر کی طرف سے پاکستان کو بھیجی گئی رقم ہے، کسی ایک بندے نے اربوں روپے نہیں بھیجے، یہ 500، 200 اور 100 ڈالر کی ترسیلات کی صورت میں قانونی طریقے سے پاکستان آئیں، بیرون ملک اوورسیز پاکستان اپنے وطن کے عشق میں مبتلا ہیں، ن لیگ نے جس طرح اوورسیز پاکستانیوں کے بارے میں ریمارکس دیئے، میں اس کی شدید مذمت کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو انہوں نے دیکھا ہی نہیں اور مسترد کر دیا، ہم نے 49 ترامیم اسمبلی میں پیش کی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا انتخاب ہو جس میں ہارنے اور جیتنے والا اسے قبول کرے، اگر اپوزیشن ان ترامیم سے متفق نہیں ہے تو وہ اپنی ترامیم پیش کرے۔

انہوں نے کہا کہ ن لیگ کا بیانیہ آ رہا ہے کہ اگلے الیکشن میں دھاندلی ہوگی، یہ باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو کمزور ہوتے ہیں، مسلم لیگ (ن) کا اگلے الیکشن میں کوئی مستقبل نہیں، وہ ایسی فضاءرکھنا چاہتے ہیں کہ جب وہ ہاریں گے تو شور مچائیں گے کہ دھاندلی ہو گئی۔

انہوں نے کہا کہ اگلے سات سال ان کا مستقبل یہی ہوگا کہ یہ لوگ بینر اٹھا کر ایک کونے میں کھڑے ہوں گے جن پر لکھا ہوگا کہ حکومت نامنظور، الیکشن نا منظور، ان کو خطاطی سیکھ لینی چاہئے تاکہ بینر لکھنے کے لئے ان کا خرچ اور وقت بچ سکے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ بجٹ کو کاروباری طبقے، صنعت کاروں اور عوام نے خوش آئند قرار دیا ہے، ہمیں خوشی ہے کہ ملک کے تمام طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے اس بجٹ کا خیرمقدم کیا،

انشاءاﷲ یہ سال پاکستان کی ترقی کا سال ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ کووڈ کے باوجود ملک میں مہنگائی کی شرح دنیا سے کم رہی، پاکستان میں مہنگائی کی شرح 28 فیصد رہی جبکہ آمدن کی شرح میں 37 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے کسان نے بے پناہ فائدہ اٹھایا، 1100 ارب روپے اربن اکانومی سے رورل اکانومی میں منتقل ہوئے، 60 فیصد ورکر زرعی شعبہ سے وابستہ ہے، چاول، گندم، مکئی، کینو، گنا، آم سمیت سات بمپر فصلیں ہوئیں جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت 4 فیصد سے زیادہ بڑھی۔

انہوں نے کہا کہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ میں اضافہ ہوا، بجٹ میں عام آدمی کے لئے ہم نے اقدامات اٹھائے، چھوٹی گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کی، انٹرنیٹ، موبائل فونز، موبائل ڈیٹا پر نئے ٹیکس لگانے کی تجویز کو مسترد کیا، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا، ٹیکس ریلیف پنشنرز کو بھی ملا اور تنخواہ دار طبقے کو بھی۔

انہوں نے کہا کہ کامیاب جوان اور ہاوسنگ کے منصوبوں سے ہمارے تمام طبقات کو بے پناہ فائدہ ہوگا، کوئی بھی شخص کاروبار کے لئے آسانی سے قرض لے سکے گا، ہم نے عام آدمی اور صنعت کاروں کو ریلیف دیا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ 2008ءسے 2018ءتک پی ٹی وی میں 1800 لوگ بھرتی کئے گئے۔ اے پی پی میں 922 لوگ ہیں جن میں سے صحافی تقریباًً 250 ہیں، باقی سارے غیر صحافی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ پر اصل کیس یہ بننا چاہئے کہ کس طرح انہوں نے اضافی بھرتیوں سے اداروں کو نیست و نابود کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اے پی پی، ریڈیو پاکستان اور وزارت اطلاعات کے ہر فرد کو گھر فراہم کریں گے، ہم ملازمین کو الاونسز دیں گے، ہم اداروں میں ریفارمز لائیں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ گرین لائن منصوبہ ہم نے دیا، اسد عمر نے اس پر بہت توجہ دی ہے، جب تک صوبائی محکمے ترقیاتی کام میں شامل نہیں ہوں گے، منصوبوں میں تاخیر ہوگی۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ سندھ کو ساڑھے سات کروڑ روپے این ایف سی ایوارڈ سے مل رہے ہیں، اندرون سندھ اور کراچی پیکیج اس کے علاوہ ہے، مراد علی شاہ کہتے ہیں کہ وفاق اضافی پیسہ بھی انہیں دے، اگر یہ پیسہ مراد علی شاہ اینڈ کمپنی کو دیا جائے تو وہ کراچی، بدین، گھوٹکی اور لاڑکانہ میں لگنے کی بجائے دوبئی اور پیرس میں جا کر لگے گا۔ ہم اپنا پیسہ براہ راست عوام پر لگائیں گے، سندھ کے حکمرانوں کو دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

مردم شماری کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہونا چاہئے، ایک ویب سائیٹ بننی چاہئے جس میں نادرا کا روزانہ کا ڈیٹا اپ ڈیٹ ہونا چاہئے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ کتنی آبادی بڑھی ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ہم نے 60 اداروں کے سربراہان میرٹ پر تعینات کئے، یہی وجہ ہے کہ آج ادارے اپنے پاوں پر کھڑے ہو رہے ہیں، سٹیل مل، پی ٹی وی، ریڈیو اور دیگر اداروں کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے۔