سینٹ تاریخ کے دوراہے پر : شفاف پارلیمانی سیاست کے فروغ کا نادر موقع

  خواجہ بابر فاروق/احمد طلال

سینٹ پاکستان کی پارلیمان کا ایوان بالا اور وفاق کے استحکام کی علامت ایک اہم ادارہ ہے جس میں تمام وفاقی اکائیوں کی بلاتفریق آبادی و جغرافیہ برابر نمائندگی موجود ہے۔ تنوع کے ذریعے یکجہتی کے تصور کے حامل اس پارلیمانی ادارے کا بنیادی مقصد قومی ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے ۔ یہ برابر نمائندگی کے باعث پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں کی آواز اور یک جہتی کا اہم عنصر ہے ۔ دو ایوان پر مشتمل پارلیمانی نظام میں جمہوری تسلسل کے حوالے سے اس ایوان کو یہ منفرد اہمیت حاصل ہے کہ یہ ادارہ کبھی تحلیل نہیں ہوتا بلکہ ہمہ وقت  موجود رہتا ہے، ہر تین سال کے بعد اس کے نصف ارکان سبکدوش ہوجاتے ہیں اور ان کی جگہ نئے ارکان کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ چیئرمین سینٹ صدر مملکت کی عدم موجودگی میں قائم مقام صدر کا عہدہ سنبھالتے ہیں۔

سینٹ پاکستان میں پھلنے پھولنے والی رنگارنگ ثقافتوں کو وفاق کی ایک لڑی میں پروتے ہوئے قومی ہم آہنگی کے فروغ اور وفاقی اکائیوں کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ادارہ تصور کیا جاتا ہے ۔جمہوری و پارلیمانی روایات کے فروغ اور استحکام میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے تاہم بالخصوص ایک، دو عشروں سے سینٹ کے انتخابات کے موقع پر مبینہ طور پر پیسے کی سیاست،بے جا اثر و رسوخ کا استعمال اور ہارس ٹریڈنگ کا کلچر نہ صرف اس باوقار ایوان کے حقیقی چہرے کو مسخ کرتاںے بلکہ اس کی تابناک جمہوری روایات اور تاریخی کردار کو بھی دھندلا دیتا یے ۔

پارلیمان کے ایوان زیریں کے ارکان کی طرح سینٹ کے ارکان براہ راست عوام الناس کے ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتےبلکہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان سینٹ کے ارکان کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایوان بالا میں ہر صوبے اور وفاق کیلئے ٹیکنو کریٹس، علما، خواتین اور اقلیتوں کیلئے بھی نشستیں مختص ہیں اسطرح پیشہ وارانہ اور علمی و فکری قابلیت رکھنے والی وہ ممتاز شخصیات بھی سینیٹ کی رکن بن کر پارلیمانی نظام میں فعال کردار ادا کرسکتی ہیں جو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی حلقہ بندیوں کے نظام کے ذریعے منتخب نہیں ہوپاتیں، ماضی اور حال میں متعدد نمایاں اور ممتاز شخصیات نے سینیٹ کے پلیٹ فارم سے پارلیمان کا حصہ بن کر ملک و قوم کی خدمت اور جمہوریت کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔

Senate

ایوان بالا کے حوالے سے موجودہ صورتحال کی بات کی جائے تو 3 مارچ 2021 کو سینٹ کے نصف ارکان کی تین سالہ مدت کی تکمیل کے بعد نئے ارکان کا انتخاب ہونا ہے۔ ہر صوبے سے 7 عمومی ، 2 خواتین، 2 ٹیکنو کریٹس، ایک اقلیتی رکن کا انتخاب کیا جائے گا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے بھی ایک جنرل اور ایک خاتون نشست پر انتخاب ہو گا۔ ہر صوبائی اسمبلی کے ارکان اپنے صوبہ کی نمائندگی کیلئے سینٹ ارکان کا انتخاب کریں گے جبکہ وفاقی دارالحکومت کی دو نشستوں کیلئے قومی اسمبلی حلقہ انتخاب ہو گا۔

ماضی میں سینٹ آف پاکستان کے انتخابات میں پیسے کے بل بوتے پر ووٹ خریدنے کے الزامات سامنے آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے شفاف انتخابات کیلئے اوپن بیلٹنگ کی تجویز دی ہے۔ عمران خان کا نہ صرف وزیراعظم کی حیثیت سے یہ موقف ہے بلکہ اپوزیشن رہنما کے طور پر بھی ان کی دیرینہ اور نپی تلی رائے رہی ہے کہ سینٹ انتخابات خفیہ بیلٹ کے ذریعے نہیں ہونا چاہیے جس پر سیاسی جماعتوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا ہے اور ابھی تک کوئی اتفاق رائے پیدا نہیں ہوسکا ۔اس حوالہ سے سپریم کورٹ میں ایک صدارتی ریفرنس بھی دائر کیا گیا جس کی سماعت جاری ہے اور عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں سینٹ کے نئے انتخابات میں ووٹنگ کے طریقہ کار کا تعین ہو گا۔

 

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز، جو خود بھی سینیٹر ہیں، کا کہنا ہے کہ عام انتخابات اور سینٹ الیکشن سمیت تمام انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدارانہ انداز میں ہونا چاہئے۔ سینٹ الیکشن کی شفافیت کیلئے حکومت اوپن بیلٹنگ کی خواہاں ہے۔ذرائع ابلاغ کے ساتھ گفتگو اور پارلیمان میں انھوں نے بارہا اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ اس معاملے کا ایک قانونی اور دوسرا اخلاقی پہلو ہے۔ یہ ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے، ملک تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے، ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ پیسے کی سیاست کو فروغ دینا ہے یا میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ جمہوریت اور جمہوریت کی طاقت پارلیمنٹ ہوتی ہے ، ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم ایسا کیا قدم اٹھا سکتے ہیں کہ اس ایوان کا تقدس بحال رہے، انہوں نے کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے جن معاملات پر میثاق جمہوریت میں اتفاق کیا، کیا وجہ ہے کہ 10 سال ان دو جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں لیکن انہوں نے اس پر عمل درآمد نہیں کیا ۔شبلی فراز نے اپوزیشن سمیت تمام سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہوئےکہا کہ یہ نادر موقع ہے کہ اسے ملک اور معاشرے کی بہتری کیلئے استعمال کریں تاکہ ہماری آنے والی نسلیں پیسے کو خدا بنانے کی بجائے اخلاقیات، میرٹ اور اہلیت کو ترجیح دی اور ہم پر فخر کر سکیں ۔

وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت شفقت محمود سینیٹ کو تمام وفاقی اکائیوں کو برابری کی سطح پر نمائندگی فراہم کرنے والا ادارہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایوان بالا کی حیثیت سے سینیٹ نے فعال کردار ادا کیا ہے اور اہم قانون سازی کی ہے لیکن ہارس ٹریڈنگ کے الزامات افسوس ناک ہیں، اس سے جمہوری نظام کے بارے میں شکوک پیدا ہوتے ہیں، انکا کہنا ہے کہ اپوزیشن کو حکومت کی اوپن بیلٹنگ کی تجویز پر غور کرنا چاہیے۔ سینٹ کے مقاصد اور اہمیت کے بارے”اے پی پی” سے گفتگو کرتے ہوئے شفقت محمود نے کہا کہ سینیٹ کا ایک بہت بڑا کردار یہ ہے کہ جو وفاقی ڈھانچہ ہوتا ہے، اس میں تمام وفاقی اکائیوں کی برابری کی سطح پر نمائیندگی ہوتی ہے ایسا ادارہ اس لیے ہوتا ہے کہ سب کو ایک یکساں احساس ہو کہ وہ سارے ایک ایسے ایوان کے ممبر ہیں جس میں سب برابر کی سطح پر اور یکساں ہیں، اس لیے سینیٹ کا بہت بڑا کردار ہے اور ایوان بالا کی حیثیت سے وہ جتنے بھی بل ہوتے ہیں، ان کو بھی سٹڈی کرتا ہے، اس طرح وہ ایک فعال ادارہ ہے۔ہارس ٹریڈنگ کے الزامات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر یہ اخلاقی معاملہ ہے جس میں تحریک انصاف نے واضح موقف اختیار کیا ہے،اخلاقی نکتہ نظر سے بڑے افسوس کی بات ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے سینیٹ کے چار پانچ انتخابات سے یہ الزام لگ رہے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے سارا جمہوری نظام متاثر ہوا اور جمہوری نظام کے بارے میں بھی شکوک پیدا ہوئے، اس لیے ہم نے جو بل متعارف کرایا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ شکوک ختم ہو جائیں ،ہم نے اکتوبر میں یہ بل متعارف کرایا تھا اور اپوزیشن کو کہا تھا کہ وہ ساتھ آ کر بیٹھیں کیونکہ میثاق جمہوریت میں خود انہوں نے یہ کہا تھا کہ سینیٹ کا الیکشن اوپن بیلٹ سے ہونا چاہیے، بعد میں سینیٹ کی “کمیٹی آف دی ہول” نے بھی یہ کہا۔ ان کے مختلف قائدین کے بیانات بھی موجود ہیں ،بدقسمتی سے اپوزیشن نے اس بل کی حمایت نہیں کی ۔ چونکہ اب تحریک انصاف نے یہ بات کی ہے تو ان کا رویہ تبدیل ہو گیا اور دوسری بات یہ کہ لگتا ہے کہ ان کے ارادے نیک نہیں ہیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

سینٹ کا نہ صرف اہم پالیسی و قانون سازی اور قومی مسائل کےحل میں کلیدی کردار ہے بلکہ وقتاً فوقتاً بعض نازک بین الاقوامی امور میں بھی اس نے اپنا موقف اور فیصلہ دوٹوک انداز میں دیا جس سے قومی مفاد ، جمہوری قدروں اور وفاقی اکائیوں کو تقویت ملی ۔سینٹ کے کردار اور خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے مسلم لیگ( ن) کے رہنما اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے  خارجہ امور کے چئیرمن سینیٹر مشاہد حسین سید، جو ممتاز پارلیمنٹرین اور طویل عرصہ سے سینیٹ سے وابستہ ہیں، کہتے ہیں کہ پاکستان ایک وفاق ہے، ماضی میں1973 کے آئین سے پہلے جو مسائل پیش آۓ انکی وجہ یہ تھی کہ ہم نےوفاق کے تقاضے پورے نہیں کیے ، ہم نے اسے وفاق کی بجائے یونیٹری سٹیٹ اور مرکزیت کی بنیاد پر ریاست کو چلانے کی کوشش کی، انہوں نے کہا کہ 1973ء کے آئین کے تحت سینیٹ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وفاق کی جتنی بھی اکائیاں ہیں ان کی نمائندگی ہو اور برابر کی سطح پر نمائندگی ہو اور جو اکائیاں ہیں، ان کی آواز اسلام آباد تک پہنچے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے ایوان نے اچھا کام کیا ہے ویسے بھی ایشوز کے حوالے سے دیکھ لیں یہ وہی سینیٹ ہے جس نے 2003ء میں جب پرویز مشرف کا دور تھا ،عراق کی جنگ کی مخالفت کی، حزب اختلاف اور حزب اقتدار نے متفقہ مخالفت کی۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ 2011ء میں جب سلالہ کا واقعہ ہوا تو پارلیمنٹ کے فیصلہ میں سینیٹ کا کلیدی کردار تھا کہ ہم امریکہ سے معافی منگوائیں گے ۔تاریخ کے جھروکوں سے ایوان بالا کے کردار کو مزید اجاگر کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ یہ وہی سینیٹ ہے جس نے یمن کی جنگ میں، جب پارلیمان کو فیصلے کرنےکا کہا گیا تو ایک بار پھراس میں سینیٹ کا کلیدی کردار تھا اور فیصلہ کیا گیا کہ ہم نے یمن کی جنگ میں حصہ نہیں لینا اور یہ وہی سینیٹ ہے جس نے 2005ء میں بلوچستان کے حوالے سے کمیٹی بنائی اور ایک مکمل مسودہ/دستاویز تیار کی، میں اس کی سب کمیٹی کا چیئرمین تھا، کمیٹی نے غور کیا کہ بلوچستان کے موجودہ مسائل کیا ہیں، کمیٹی نے ایسا مسودہ تیار کیا جس کو نواب اکبر خان بگٹی سے لے کر محمود خان اچکزئی تک سب نے قبول کیا۔ انہون نے کہا کہ سینیٹ کا مقصد ہی یہ ہے کہ ایشوز کی بنیاد پر سیاست کی جائے اور آواز اٹھائی جائے، مشاہد حسین سید نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں مسائل کے پیدا ہونے کا جہاں تک تعلق ہے تو یہ مسئلے اس لیے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے، طرز انتخاب کی وجہ سے مسئلے پیدا ہوئے ہیں، سینیٹ کے ادارے سے ان مسائل کا تعلق نہیں، کچھ حلقوں، کچھ صوبوں میں، کچھ مواقع پر اگر گڑبڑ ہوئی اور پیسہ چلا ہے تو اس کی رکاوٹ کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے اور قانون پر عملدرآمد ہونا چاہیے، اس میں سینیٹ کا قصور نہیں، وہ سسٹم کا قصور ہے۔ بدنامی ان لوگوں کی ہوئی ہے جنہوں نے پیسہ دیا ہے یا پیسہ لیا ہے ، یہ گند ختم کرنا چاہیے اوریہ مل جل کر ختم ہوگا۔

جے یو آئی (ف )کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی کا کہنا ہے کہ سینیٹ کو عوامی مسائل پر مل جل کر قانون سازی کرنا چاہیے اور ہمیں نااتفاقی کے اس ماحول میں مشترکات پر یکجا ہونا ہوگا، سینیٹ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

سینیٹ کے الیکشن کےلئے چاروں صوبوں اور وفاق میں سیاسی جماعتیں اپنے اپنے امیدوار میدان میں اتار چکی ہیں، زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کیلئے ملاقاتیں اور جوڑ توڑ جاری ہے۔ پارلیمانی حلقوں کاکہنا ہے کہ اندریں حالات پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی اور دو صوبوں میں عددی برتری حاصل ہے جس کے باعث امید کی جا سکتی ہے کہ سب سے زیادہ ارکان پی ٹی آئی کے منتخب ہوں گے جس کے بعد تحریک انصاف پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بن  جائے گی۔

ہر سیاسی جماعت کی خواہش ہے کہ وہ کم از کم اپنی قومی و صوبائی نمائندگی کے مطابق بلکہ اس سے بڑھ کر نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے، یہ کوشش یقیناً ہر سیاسی جماعت کا حق ہے لیکن اس عمل کے دوران اگر ہارس ٹریڈنگ ، ووٹ خریدنے ، اور دھونس کے ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں تو یہ جمہوری قدروں کی پامالی کے ساتھ ساتھ سینیٹ کے بنیادی مقاصد کو پس پشت ڈالنے اور وفاق کے استحکام اور وقار کیخلاف اقدام متصور ہوگا، امید کی جاتی ہے کہ اعلی پارلیمانی اور جمہوری روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی عمل خوش اسلوبی سے انجام پائے گا اور ان انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو، اگر سینیٹ اپنے ماضی کی شاندار روایات، سنجیدگی اور سیاسی پختگی کیساتھ آگے بڑھے گی تو یہ ملک میں جمہوریت اور پارلیمانی نظام کیلئے نیک شگون اور ملک میں سیاسی استحکام و قومی یکجہتی کیلئے باعث اطمینان ہوگا اور پارلیمان، سیاست اور سیاستدانوں کے وقار میں اضافے کا موجب بھی ہوگا۔بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ پارلیمان کا ایوان بالا تاریخ کے دوراہے پر کھڑاہے اور تمام سیاسی جماعتوں کے پاس یہ نادر موقع ہے کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوری اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے شفاف اور صاف ستھری سیاست کو راسخ کرنے کے لیے اپنا موثر کردار ادا کریں جس سے نہ صرف پارلیمانی نظام کو تقویت ملے گی بلکہ سیاسی جماعتیں بھی سرخرو ہوں گی۔