قانونی اصلاحات سے عوام کی مشکلات میں کمی کی امید

قانونی اصلاحات سے عوام کی مشکلات میں کمی کی امید
قانونی اصلاحات سے عوام کی مشکلات میں کمی کی امید

تحریر ناصر عباس

خودمختار اور فعال عدلیہ جمہوریت، اسلوب حکمرانی ، سکیورٹی ، معاشی ترقی کیلئے اہم تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس سے تمام شہریوں کیلئے قانون کی حکمرانی یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے، یہ قانون پر عمل کرنے والے شہریوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت ہے، یہ کسی مخصوص فرد، کمیونٹی، فرقہ یا مذہب کے خلاف کسی بھی فرد یا گروپ کے غیر قانونی اقدام کے خلاف ڈھال ہوتی ہے۔ آزاد عدلیہ کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے اچھے نظم و نسق کو یقینی بنانے اور خوشحال اور مساوات پر مبنی معاشرے کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔ کسی بھی ملک میں اس کلچر کے فروغ کیلئے اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے جس سے پسے ہوئے اور محروم طبقات کو انصاف کی ہر ضرورت کی فراہمی میں مدد ملتی ہے تاہم بدقسمتی سے پاکستان میں ماضی کی حکومتوں کی جانب سے عدالتی اصلاحات کا وعدہ تو کیا گیا تاہم کئی دہائیوں سے اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد عدالتی نظام میں اصلاحات کا بیڑا ٹھایا اور موجودہ حکومت کے اقدامات سے پرانے عدالتی نظام میں اصلاحات کی امید جگمگائی۔ عوام بالخصوص معاشرے کے کمزور طبقات کو انصاف کی آسانی سے فراہمی یقینی بنانا پاکستان تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے،

اس منشور پر عملدرآمد کے تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے 29 مئی 2020 کو وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کی سربراہی میں دو کمیٹیاں تشکیل دیں جس کا مقصد عدالتی اصلاحات اور جیلوں میں قید خواتین کی حالت زار اور ان کے علاج سے متعلق سفارشات تیار کرنا تھا۔ کمیٹی کو عدالتی اصلاحات اور ان اصلاحات پر عملدرآمد کی ذمہ داری بھی سونپی گئی۔ عدالتی اصلاحات سے متعلق کمیٹی کو فوجداری نظام انصاف، پولیس کلچر، مقدمات کا اندراج، انویسٹی گیشن اور جیلوں کے نظام میں اصلاحات پر عملدرآمد کیلئے لائحہ عمل وضع کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جبکہ دوسری کمیٹی کو عدالتی نظام میں اصلاحات اور قیدی خواتین کی دیکھ بھال کیلئے سفارشات کی تیاری کی ذمہ د اری دی گئی تھی۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے گذشتہ 2 سال کے دوران وضع کی گئی اصلاحات کے حوالہ سے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف بیرسٹر ڈاکٹر فروغ نسیم نے کہا کہ وزارت نے جدید قانون سازی، ریفرنسز، آرا، باہمی قانونی معاونت کی تیاری کے مسودے تیار کئے ہیں جو کہ گذشتہ 10 سال سے التوا کا شکار تھے جبکہ سابق حکومتوں نے باہمی قانونی معاونت کے حوالہ سے قانون سازی میں ناکام رہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے باہمی قانونی معاونت قانون کا مسودہ تیار کیا تاکہ دیگر ممالک کو ان کی درخواست پر قانونی معاونت فراہم کی جائے اور فوجداری مقدمات میں ان کی معاونت کیلئے ضروری اقدامات کئے جا سکیں۔ میوچل لیگل اسسٹنٹس فوجداری معاملات میں باہمی قانونی معاونت فراہم کرنے کا طریقہ کار مہیا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے وراثتی قانون کا مسودہ بھی تیار کیا جو کہ پارلیمنٹ سے منظور ہوا تاکہ لیٹر زآف ایڈ منسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس کے اجرا کیلئے نادرا کے تعاون سے سہولتی مراکز قائم کئے جا سکیں۔ پہلے اس عمل کیلئے کئی ماہ لگتے تھے تاہم اب یہ 15 دنوں میں مکمل ہو گا جبکہ پہلے تمام لواحقین کو جسمانی طور پر عدالتوں میں موجود ہونا پڑتا تھا تاہم اب اگر قانونی ورثا موجود نہیں بھی ہیں تو لیٹر زآف ایڈ

منسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس جاری کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ورثا تمام غیر ملکی مشنز میں نادرا ڈیٹا بیس کے ذریعے اپنا لیٹر زآف ایڈ منسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس حاصل کر سکیں گے اور اب انہیں پاکستانی عدالتوں کے سامنے جسمانی طور پر پیش ہونے کی ضرورت نہیں، اس پر ان کے اخراجات اور وقت کی بچت ہو گی جبکہ عدالتوں پر مقدمات کے بوجھ میں کمی آئے گی۔وزیر قانون نے کہا کہ ترمیم سے پہلے عدالتیں لیٹر زآف ایڈ منسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس ایکٹ 1925 کے تحت جاری کرتی تھیں۔ نادرا کے تعاون سے اب تیار کئے گئے نئے نظام سے لیٹر زآف ایڈ منسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس اب بیرون ملک مشنز سے بھی حاصل کئے جا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قانون سازی نمایاں کامیابی ہے۔ خواتین پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2020 پر عملدرآمد کا قانون اہم قانون سازی ہے، اس سے خواتین کو وراثتی پراپرٹی سے محروم ہونے سے تحفظ ملے گا، اگر کہیں بھی خواتین کو اس حق سے محروم کیا جائے گا تو محتسب کو اس پر کارروائی کا اختیار دیا گیا ہے، حکومت نے خواتین اور بچوں کو مالی اور قانونی مدد کیلئے لیگل ایڈ جسٹس اتھارٹی ایکٹ 2020 وضع کیا ہے۔ ریپ اور جسمانی ہراسگی کے جرائم اور صنفی امتیاز پر مبنی تشدد کے مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کیلئے اینٹی ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل)آرڈیننس 2020 اور کریمنل لا ترمیمی آرڈیننس 2020 نافذ کیا گیا ہے۔ خواتین اور بچوں کے مقدمات کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام اور خصوصی ٹیموں کی تشکیل کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں اہم قانون سازی میں اینٹی منی لانڈرنگ ترمیمی بل 2020، ضابطہ فوجداری بل 2020، کووڈ۔19 (ذخیرہ اندوزی) آرڈیننس 2020 اور کووڈ۔19 (سمگلنگ کی روک تھام) آرڈیننس 2020 جیسی اہم قانون سازی کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ذوالفقار احمد بھٹہ نے کہا کہ میوچل لیگل اسسٹنٹس سے متعلق قانون سازی موجودہ حکومت کا اہم کارنامہ ہے، اس سے قبل پاکستان میں کئے گئے جرائم سے متعلق بیرون ملک سے شواہد اکٹھے کرنے کا کوئی قانون نہیں تھا، اس قانون کے بعد حکومت پاکستان میں ہونے والے جرم کے خلاف کسی بھی ملک سے شواہد حاصل کر سکتی ہے، یہ نمایاں کامیابی ہے۔ انہوں نے وراثت میں خواتین کے ملکیتی حقوق کے تحفظ کیلئے خواتین ملکیتی حقوق بل 2020 پر عملدرآمد کو سراہا۔ کئی دہائیوں سے خواتین کو وراثتی اراضی سے محروم کیا جا رہا ہے، اب محتسب ماضی کی طرح کئی برسوں کی بجائے تین ماہ میں ایسے مقدمات کا فیصلہ کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ لیٹر زآف ایڈ منسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس ایکٹ 2019 اہم اقدام ہے، وزارت قانون اور نادرا کے تعاون سے اب 15 دنوں میں لیٹر زآف ایڈ منسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹس جاری کئے جائیں گے، یہ مثبت اقدام ہے اور تمام شہریوں کیلئے مفید ہو گا۔

لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق سپریم کورٹ میں اس وقت 47 ہزار 377 کیسز زیر التوا ہیں، پانچ ہائی کورٹس میں 3 لاکھ جبکہ چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت کی ذیلی عدالتوں میں 20 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ آئین کے مطابق قانون تک رسائی شہریوں کا بنیادی حق ہے، اپریل 2019 کو سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے لوگوں کو فوری انصاف فراہم کرنے اور مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کیلئے قتل اور منشیات کے مقدمات کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کیلئے ملک بھر میں 110 ماڈل کورٹس قائم کیں۔ مقدمات کو تیزی سے نمٹانے کے باعث قانونی چارہ جوئی کے اخراجات میں کمی آئی ہے۔ یہ ماڈل کورٹس عدالتی تاریخ میں خاموش انقلاب ہیں،قتل کے جو مقدمات کئی سال تک التوا کا شکار ہوتے تھے اب انہیں مختصر عرصہ میں نمٹایا جا رہا ہے۔