کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہییے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ذمہ دار مودی ہے،وزیر اعظم عمران خان کا ترک ٹی وی”اے نیوز” کو انٹرویو

اسلام آباد۔6جنوری (اے پی پی):وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل ہونا چاہییے، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ذمہ دار مودی ہے،دوجوہری ممالک کے درمیان جنگ تنازعات کا حل نہیں ہے، عالمی فورمز پر رابطوں، عالمی قوانین کا سہارا لینا ہوگا۔ اسرائیل بھی کشمیر پر بھارتی قبضے کی طرح فلسطین پر قابض ہے، فلسطینیوں کو آزادی دیئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، مغرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن سے مسلمانوں کی محبت اور احترام سے آگاہ نہیں ہے،فرانس اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ رہا ہے،اسکے طویل المدتی اثرات ہوں گے،جو بہت برے ہوں گے، اسلام صرف ایک ہے اور وہ وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے،روشن خیال اور انتہاپسند اسلام کی اصطلاحات غلط ہیں،نیوزی لینڈ کی مسجد میں پچاس سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کرنے والے کو کسی نے کرسچئیین انتہا پسند قرار نہیں دیا۔کووڈ 19 سے امیر ممالک کے مقابلہ میں غریب ممالک زیادہ متاثر ہوئے،۔ پاکستان میں اقلیتیں برابر کی شہری ہیں، کرک میں مندر کو نشانہ بنانے پر حکومت نے فوری کارروائی کی اور شرپسندوں کو گرفتار کیا،مندر کی دوبار تعمیر حکومت کرے گی،ہزارہ برادری سے مکمل ہمدردی ہے مچھ واقعہ میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔بدھ کو ترک ٹی وی”اے نیوز” کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ریاست مدینہ کے سنہری اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے خواہش مند تھے جن کی بنیاد انصاف اور برابری تھی، وہ جمہوریت پر یقین رکھتے تھے،ریاست مدینہ میں اقلیتیں برابر کی شہری تھیں،کسی کو مذہب کے حوالے سے کسی جبر کا سامنا نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ مچھ واقعہ بدقسمتی تھایہ 1980 کی دھائی کی وراثت ہے جو افغان جہاد کے نتیجہ میں ہمیں ملا،جب پاکستان میں عسکریت پسندانہ فرقہ واریت کی بنیاد رکھی گئی،ہزارہ کمیونٹی بھی انہیں سنی انتہا پسند گروپوں کا نشانہ بنے،اس حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے،ہم انہیں مکمل تحفظ اور تعاون دیں گے،مجھے ہزارہ کمیونٹی سے مکمل ہمدردی ہے اور اس واقعہ میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقلیتیں برابر کی شہری ہیں،کرک میں ہندو مندر کو نشانہ بنانے پر حکومت نے فوری کارروائی کی اور شرپسندوں کو گرفتار کیا،اس کی دوبار تعمیر حکومت کرے گی۔وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا عرصہ یورپ میں گزارا وہ دیگر مسلم راہنمائوں کی نسبت مغرب کے اسلاموفوبیا سے زیادہ اچھی طرح آگاہ ہیں،مغرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر مسلمانوں کا ردعمل نہیں سمجھ سکا،وہ نبی صلی اللہ علیہ اور قرآن مجید سے ہماری محبت اور احترام سے آگاہ نہیں،بدقسمتی سے مسلمانوں اور کرسچئیین کمیونٹی کے درمیان خلیج حائل ہے،بدقسمتی سے اس خلیج کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ مغرب کو سمجھائے کہ مسلمان اپنی مقدس کتاب قرآن مجید اور نبی آخر الزماں کی توہین پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے،نائن الیون کے بعد مغرب میں اسلاموفوبیا میں اضافہ ہوا،مغربی قیادت یہ نہیں سمجھتی کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں،اس کا حل یہ ہے کہ مسلم سربراہان یورپی یونین اور اقوام متحدہ کو بتائے کہ آزادی اظہار رائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی میں استعمال کرنے سے گریز کیا جائے،مسلم قیادت کی اکثریت مغربی کلچر کو نہیں جانتی میں نے وہاں کافی زندگی گزاری ہے،میری فیملی وہاں ہے،میں اس کو زیادہ سمجھتا ہوں،یورپ میں مذہب کو اس طرح اہمیت حاصل نہیں جیسے ہمارے ہاں ہے،یہودیوں نے ہولوکاسٹ کے حوالے سے اپنے جذبات سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ فرانس اسلام کو دہشت گردی سے جوڑ رہا ہے،اسکے طویل المدتی اثرات ہوں گے،جو بہت برے ہوں گے،پوری مسلم کمیونٹی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جائے گا،جو مسجد میں جائے جو حجاب پہنے وہ ریڈیکل تصور ہوگا،انہوں نے کہا کہ اسلام صرف ایک ہے اور وہ وہی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یے،روشن خیال اور انتہاپسند اسلام کی اصطلاحات غلط ہیں،نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں پچاس سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کرنے والے کو کسی نے کرسچئیین انتہا پسند قرار نہیں دیا۔فرانسیسی وزیر وزیرآعظم کمیرون نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر ردعمل پراسلام کو خطرہ قرار دیا،جس کا میں نے انہیں جواب دیاکہ یہ غلط سوچ ہے،انہوں نے کہا کہ کووڈ 19 سے امیر ممالک کے مقابلہ میں غریب ممالک زیادہ متاثر ہوئے،وہ اپنے بجٹ میں توازن کے لئے تگ ودو کر رہے ہیں،اس سے بے روزگاری،حکومتی محصولات میں کمی ہوئی،خسارے کا سامنا ہے،اپنی معیشت،سیاحت متاثر ہوئی،ہوٹل،شادی حال،ریسٹورنٹ بند ہوئے،نادرن علاقوں میں سیاحت بری طرح متاثر ہوئی،سری لنکا اور مصر جیسے ممالک کی سیاحت متاثر ہوئی۔انہوں نے کہا کہ بھارت میں اس وقت آرایس ایس کی حکومت یے،آرایس ایس کے انتہا پسندوں نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا،نریندر مودی نے گجرات میں سرکاری سرپرستی میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کرایا،ہزاروں کو بے گھرکیا،واجپائی کا بی جے پی کا دور روشن خیال تھا لیکن مودی الگ راستے پر ہے،بھارت آج ایسا ملک ہے جو صرف ہندوئوں کا یے،یہاں نہ صرف مسلمان بلکہ تمام اقلیتیں خطرے میں ہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں اور کرسچئیین نے سالوں انڈیا ہر حکمرانی کی اس لئے ان کو ہدف بنایا جارہا یے،پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ذمہ دار مودی ہے،میں جب کرکٹ کھیلنے انڈیا گیا تو وہاں بہت محبت ملی،ہم نے اقتدار میں آنے کے بعد تمام تنازعات مذاکرات سے حل کرنے کی پیش کش کی،لیکن مودی نے اپنی انتخابی مہم ہی پاکستان کی مخالفت میں چلائی۔انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947سے تنازعہ ہے،اقوام متحدہ نے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے سے کرنے کی اجازت دے رکھی ہے تاہم بھارت اس سے مسلسل انکاری ہے اور کشمیریوں کو یہ حق نہیں دے رہا،الٹا مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی،کشمیر میں باہر سے ہندؤ وں کو لاکر آباد کرکے آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے،80 لاکھ کشمیریوں پر 9 لاکھ فوج قابض ہے،ہر روز نوجوانوں کی شہادتوں کی خبریں آتی ہیں،تمام حریت قیادت گرفتار یا نظر بندہے،اقوام متحدہ میں تین بار کشمیر کا مسئلہ حالیہ عرصہ میں زیر بحث آیا تاہم بدقسمتی سے کوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکا۔انہوں نے کہا کہ دو جوہری ممالک کے درمیان جنگ تنازعات کا حل نہیں ہے،ہم عالمی فورمز پر رابطوں، عالمی قوانین کا سہارا لینا ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ذمہ دار مودی ہے،میں جب کرکٹ کھیلنے انڈیا گیا تو وہاں بہت محبت ملی‘ چین کے مقابلہ میں بھارت امریکہ کے لئے اہم ہے،پاکستان نے ماضی میں امریکہ کے لئے بہت قربانیاں دیں،افغان جہاد کے بعد پاکستان پر پابندیاں لگادی گئیں،جو روس کے خلاف امریکی کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے وہ مجاھدین اور ہیرو تھے تاہم ناظم الیون کے بعد جب امریکہ کے خلاف یہ لڑنے لگے تو انہیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا،پاکستان نے ستر ہزار افراد کی قربانی دی ہے‘ خودکش دھماکوں کا سامنا کیا،ہم نے اس کی بہت قیمت ادا کی،امریکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان توازن رکھے۔اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان حالات معمول پر آنے کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہر ملک کی اپنی خارجہ پالیسی اور مفاد ہے،دووجوھات کی بنا پر پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرسکتا ایک اسرائیل کشمیر کی طرح فلسطین پر قابض ہے،ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم کشمیر کے لئے آواز اٹھائیں اور فلسطین کی بات نہ کریں،قائد اعظم محمد علی جناح جو میرے لیڈر تھے۔ انہوں نے اسرائیل کے بارے میں پاکستان کو واضح پالیسی دی،کہ جب تک اسرائیل فلسطینیوں کو ان کے گھر نہیں دیتا اس کو تسلیم کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے اور میرے اوپر اس حوالے سے کوئی دبائو نہیں ڈال سکتا،پاکستان کے عوام جس طرح کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اسی طرح فلسطینیوں کے ساتھ ہیں،جو لیڈر بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرے گا اس ملک کے عوام اس کے خلاف جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ کرونا وبا کے دوران دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہم نے اپنے عوام کو دیکھ کر پالیسی بنائی،ہماری صورتحال امریکہ،برطانیہ اور چین جیسی نہیں تھی،یہ امیر ممالک تھے،ان ممالک میں لاک ڈائون کی پالیسی اختیار کی گئی تاہم ہماری آبادی کا 80 فیصد متوسط طبقہ سے تعلق رکھتا ہے جو دیہاڑی یا ہفتہ وار محنت مزدوری کرکے اپنے خاندان کی کفالت کرتا ہے ان کو مکمل لاک ڈائون کیسے کرسکتے تھے،ہم نے ان کے لئے سمارٹ لاک ڈائون لگایا،اینسی او سی بنایا،جن جگہوں پر زیادہ کیس وہاں سمارٹ لاک ڈائون لگایا،صوبہ سندھ زیادہ متاثر تھا یہاں اپوزیشن کی حکومت تھی یہاں مکمل لاک ڈائون لگایا گیا تاہم ہم نے تمام سپلائی لائنز کھولیں،تعمیرات کا شعبہ کھولا،ہم نے اپنے لوگوں کو غربت سے بچایا،اگر ہم مکمل لاک ڈائون لگاتے تو یہ بھارت کی طرح ناکام ہوتا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کا ذمہ دار مودی ہے،میں جب کرکٹ کھیلنے انڈیا گیا تو وہاں بہت محبت ملی۔ترک سے تعلقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی مشترکہ اقدار ہیں کشمیر پر 5 اگست کے بعد ملائیشیا اور ترکی نے بھرپور ساتھ دیا جب دیگر مسلمان ممالک خاموش تھے،ترکی میں تحریک خلافت اور یورپ کے حملے کے خلاف پاکستانی لڑے،پاکستان اور ترکی کے تعلقات میں تاریخی پہلو ہیں،انہوں نے 600 سال حکومت کی ہے،پاکستان کی اردو زبان ترک زبان کے الفاظ کا مجموعہ ہے،پاکستان 22 کروڑ کا ملک ہے اور ترکی کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافہ ہوسکتا ہے،مہاتیر محمد کے بعد اردوان نے اپنے عوام کی حالت زار بدلی۔