منٹوپارک ۔پریڈ گراؤنڈ سے یادگار پاکستان تک

رپورٹ:امتیاز احمد
لاہورشہر کواپنی ثقافتی اور تاریخی اقدار کی وجہ سے ہمیشہ ایک منفرد مقام حاصل رہا ہے۔ خوبصورت پارکوں، شاندار عمارتوں، دلکش یادگاروں اور عمدہ ثقافت کی وجہ سے ایبک دور، غوری دور‘غزنوی اور مغل دور حکومت میں اس کو ایک مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ بادشاہی مسجد، شاہی قلعہ، شالامار گارڈن اور دیگر یادگاریں اس عہد کی یاد دلاتی ہیں اور آج بھی ہر عمر کے لوگوں کی دلچسپی کا باعث ہیں ،اس تمام تاریخی و ثقافتی ورثہ کی اہمیت اپنی جگہ تاہم ان یادگاروں میں مینارِ پاکستان سب سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ منٹو پارک میں تعمیر کیا گیا یہ مینار اسی جگہ پر تعمیر کیا گیا جہاں قرارداد پاکستان منظور کی گئی تھی، یہ اپنی دلکشی، خوبصورتی اور عمدگی کے ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ مادر وطن کے حصول کی اپنی عظیم کامیابی کی یاد دلاتا ہے۔

منٹو پارک، لاہورجسے اب گریٹر اقبال پارک کے نام سے جانا جاتا ہے ،کو 22 تا 24 مارچ، 1940 کے آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ جنرل اجلاس کی جگہ کے طور پر منتخب کیا گیااور پھر اسی مقام پر مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ اس قرار داد نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ ریاست کے حصول کے لئے جدوجہد کی راہ ہموار کی تھی اور یہ خواب 14 اگست 1947 کو پورا ہوا۔اس لئے 23 مارچ، 1940 تحریک پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل بن گیا۔منٹو پارک کی تاریخ بہت پرانی ہے ماضی میں مسلم دور حکومت، سکھ اور برطانوی راج کے دوران اس گراؤنڈ کو ملٹری پریڈ گراؤنڈ کے طورپر استعمال کیا جاتا رہا۔یہ پارک 1807 سے1813میں ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ گلبرٹ ایلیٹ مرے کینیمونڈکے نام سے منسوب تھالیکن بعد میں اسے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے نام سے منسوب کر کے گریٹر اقبال پارک رکھ دیا گیا۔

مغلیہ عہد کے دوران منٹو پارک، شاہی قلعہ اور دریائے راوی کے درمیان پھلوں کے ایک بہت بڑے باغ سے جڑا ایک سرسبزباغ کا حصہ تھا۔ شاہی قلعہ لاہور کے نزدیک علاقہ بادامی باغ کا نام بھی اسی باغ سے اخذ کیا گیا۔ مغل دور حکومت میں شاہی قلعہ لاہور کے قریب اسی جگہ پر بادام،آم اور بیر کے درختوں پر مشتمل ایک بہت بڑا باغ موجود تھا جو آہستہ آہستہ ختم ہوکر گیا اور اب اس علاقہ کو اسی باغ کی نسبت سے بادامی باغ کہتے ہیں۔ بادشاہت کے دور میں اس سر سبز باغوں پر مشتمل اس وسیع کھلی جگہ کورسمی فوجی و ملٹری پریڈ کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ۔1799 میں جب سکھ اقتدار میں آئے تو انہوں نے باقاعدہ طور پر اس پارک کو ‘پریڈ گراؤنڈ’ کا نام دے دیا۔ سکھوں نے پھلوں کے باغات پر مشتمل اس خوبصورت علاقہ کو مزید توسیع دینے کی بجائے اس علاقہ کو فوج کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا تھا۔۔ 1849 میں انگریزوں نے لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد قلعہ لاہور کو فوجی اڈے میں تبدیل کر دیااور برطانوی فوج روزانہ کی مشقوں کے لئے اس خوبصورت باغ اور پریڈ گراؤنڈ کو استعمال کرنے لگی تھی۔ انگریزوں نے مکمل اجارہ داری اور انگریز راج کی برتری قائم کرنے کے لئے‘پریڈ گراؤنڈ’کا نام تبدیل کر دیا تھا لیکن، برصغیر سے نکل جانے اور پاکستان کی تشکیل کے بعد، پاکستان کے مسلمانوں نے اس کا نام اقبال پارک رکھ دیا۔

 

سابق پرنسپل، اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مظہر معین کے مطابق لارڈ منٹو 1807 سے1813 کے درمیان برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا گورنر جنرل تھا اور اس کے بعد اس پارک کا نام برصغیر کے مکمل نوآبادیاتی ماضی کی علامت اور برطانوی راج کی طاقت کی عکاسی کرتا تھا۔ 23 مارچ، 1940 کی لاہور قرارداد، در حقیقت نوآبادیاتی حکمرانی کے خلاف بغاوت اور مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی جدوجہد کرنے کا ایک مطالبہ تھا۔انہوں نے کہاکہ آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے 27 ویں جنرل اجلاس میں اس مقام پر ہی قرارداد لاہور منظور کی تھی جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی۔ ڈاکٹر مظہر معین نے کہاکہ قیام پاکستان کے بعد منٹو پارک کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی جگہ پر یادگار پاکستان تعمیر کیا گیا اور اس منٹوپارک کو گریٹر اقبال پارک میں تبدیل کردیا گیا۔انہوں نے کہاکہ آج یہ جگہ قومی‘ثقافتی، سیاسی اور جغرافیائی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہے۔

چیئرمین شعبہ ہسٹری پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر محبوب حسین نے کہاکہ کہ منٹو پارک، لاہور کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس کے لئے منتخب کرنا متعدد وجوہات کی بنا پر تھا، لاہور ایک تاریخی ثقافتی اور علمی مرکز ہونے کے علاوہ کئی دور حکومتوں کے دوران اقتدار اور طاقت کا مرکز بھی رہا تھااور ان دنوں میں لاہور ایک مسلم اکثریتی شہر تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ تاریخی اہمیت کے حامل شہر لاہور سے شروع ہونے پر یہ تحریک ہندوستان کی طول وعرض میں جلد پھیل جائے گی۔

انہوں نے کہاکہ23 مارچ کے مسلم لیگ کے جلسہ کے لئے منٹو پارک کے انتخاب میں لاہور کا سیاسی پس منظر بہت زیادہ اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ مغلوں کا دارالحکومت تھا اور ہزاروں لوگوں کے اس جنرل اجلاس میں شرکت کی توقع کی گئی تھی، ”ڈاکٹر محبوب حسین نے مزید کہا پولیس آرکائیو سے پتہ چلتا ہے کہ منٹو پارک کی حیثیت سے عام سیشن میں تقریبا 25000 افراد شریک ہوئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے تمام حصوں سے ایک لاکھ سے زائد افراد نے اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لاہور کے اس پنڈال اور تاریخی جلسہ نے مسلمانوں کے الگ وطن کے مطالبہ کو نئی تقویت بخشی تھی۔ شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے ویژن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے جنھوں نے 1930 کے اپنے خطہ الہ آباد میں مسلم اکثریتی علاقوں کو ایک علیحدہ ریاست بنانے کا نظریہ پیش کیا تھا، قیام پاکستان کے فورا بعد ان کے نام پر منٹو پارک کا نام ‘اقبال پارک’ رکھا گیا جبکہ 2017میں اس کا نام گریٹر اقبال پارک رکھ دیا گیا۔

آج کا گریٹر اقبال پارک جو کبھی منٹو پارک کے نام سے جانا جاتا تھا اپنی اندر جدوجہد آزادی کی ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ 125 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوئے اس پارک میں لاہور قلعہ، بادشاہی مسجد، رنجیت سنگھ کی سمدھی، شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی قبر، حفیظ جالندھری کی قبر، وسیع و عریض سرسبز لان موجود ہیں۔ قرارداد لاہور کی یادگارجس کو مینار پاکستان کہتے ہیں بھی اسی پارک کا حصہ ہے۔مینار پاکستان نہ صرف ہمیں برصغیر کے مسلمانوں کے آزاد ملک کے لئے جدوجہد کی یاد دلاتا ہے بلکہ اپنی خوبصورتی میں بھی ایک شاہکار ہے۔مینار پاکستان کی تعمیر میں کنکریٹ‘پتھر اور سنگ مر مر کا استعمال کیا گیا ہے۔مینار کے نیچے محرابی سٹرکچر میں سفید سنگ مرمر پر قرارداد لاہور اور قرارداد دہلی کی عبارات اردو‘بنگالی اور انگریزی زبان میں کندہ ہیں۔اس کے علاوہ اللہ تعالی کے 99 صفاتی نام‘عربی خطاطی‘علامہ اقبال کے چند اشعار‘قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کے اقتباسات‘قرآن پاک کی آیات مبارکہ اور پاکستان کا قومی ترانہ بھی سفید سنگ مرمر پر کندہ کیا گیا ہے۔ یہ تمام یادگاریں برصغیر کی تاریخ میں مختلف ادوار پر محیط ہیں لیکن گریٹر اقبال پارک قرارداد پاکستان کی ایک ایسی یادگار ہے جس نے مسلمانوں کو تحریک آزادی کی سمت فراہم کی اور 1947 میں سات سال کے قلیل عرصہ میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بنیاد رکھی۔