،وزیر عظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کاخواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب

لاہور۔8مارچ(اے پی پی )وزیر عظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ صرف 8 مارچ نہیں ہر دن خواتین کو طاقتور اور با اختیار بنانے کا دن ہے،وزیر اعظم عمرا ن خا ن جو ریاست مدینہ کے طرز پر جس ریاست کی تعمیر و ترقی کیلئے کوشاں ہیں اس میں جب تک ہماری خواتین معاشی ،سیاسی ،معاشرتی ، آئینی اور قانونی محاذ پر عملی طور پر با اختیار اور طاقتور نہ ہوں پاکستان کا ریاست مدینہ کی طرف بڑھنے کا سفر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا ،استحصال کے خلاف خواتین کو طاقت دینے کیلئے دین اسلام کا ظہور ہوا ،اسلام میںخواتین کی حدود کا تعین ہو چکا ہے ، میر ے علم میںہے کہ چادر اور چار دیواری کو پامال کئے بغیر دنیا ہمارے سامنے کھلی ہوئی ہے اور ہم جس سمت میں چاہیں آگے بڑھ سکتیں ہیں ،پاکستان میں خواتین کے حقوق کے لئے بے چین تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم اور ان کی بے حرمتی کیوں نظر نہیں آتی، اقوام متحدہ نے اس پر کیوں آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ان خیالات کا اظہارا نہوں نے یو این ایف پی اے اور محکمہ ویمن ڈویلپمنٹ کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر آشفہ ریاض فتیانہ، ڈاکٹر جویریہ، شاہین عتیق الرحمان، اصغر زیدی ، رخسانہ گیلانی، مہناز رفیع اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات سر انجام دینے والی خواتین کی کثیر تعداد بھی موجود تھی۔ ڈ ا کٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ آج کا دن ہمیں ان خواتین کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے ایک کاز کیلئے جدوجہد کی تھی،اس پلیٹ فارم سے پیغام دینا ہے کہ جو بھی ہماری تبدیلی کا پارٹنر ہے ہم اس کوسپورٹ کرتے ہیں اور اس کی تائید بھی کرتے ہیں۔ ا نہو ں نے کہا کہ یو این ایف پی اے کی سپورٹ کے بغیر اس حسین تقریب کا انعقاد نہیں ہو سکتا تھا، وزارت ویمن ڈویلپمنٹ نے جو خوبصورت گلدستہ سجایا ہے ،یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ پاکستان کے اندر ہر شعبے میں خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کیلئے پر عزم ہیں اور آج کا پروگرام تمام شعبہ سے تعلق رکھنے والی خواتین کی کاوشوں اورخدمات کاکا آئینہ دار ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ مارچ کا عالمی دن خصوصی طو رپر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے خواتین کے نام سے مخصوص کیا گیا ہے ،دیکھنا یہ ہے کہ اس دن کی ضرورت کیوں پڑی ،آٹھ مارچ ہی کیوں ،ہر دن خواتین کو طاقتور اور با اختیار بنانے کا دن ہے ، ہر آنے والی گھڑی خواتین کو طاقتور بنانے کی سوچ سے جڑ ی ہوئی روڈ میپ ہے ،مجھے فخر ہے کہ میں ایک مسلم معاشرے میںاسلامی فلاحی ریاست کی شہری ہوں اور اس دین کی پیرو کار ہوں جس کی بنیادوں سے جڑا نظریہ اورپیغام رنگ ونسل اور مذہب سے ہٹ کر انسانیت کا پیغام ہے۔وزیر اعظم پاکستان ریاست مدینہ کے طرز پر جس ریاست کی تعمیر و ترقی کے لئے کوشاں ہیں، اس ریاست میں ہماری خواتین معاشی ،سیاسی ،معاشرتی ،آئینی اور قانونی محاذ پر جب تک عملی با اختیار اور طاقتور نہ ہوں پاکستان کا ریاست مدینہ کی طرف بڑھنے کا سفر تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سلام پیش کرتی ہوں اسلام کی ان پاکیزہ ہستیوں کو جو خواتین میرے لئے رول ماڈل ہیں، حضرت خدیجتہ الکبری سب سے پہلی تجارت پیشہ مسلمان خاتون تھیں ،استحصال کے خلاف خواتین کو طاقت دینے کیلئے اس دین کا ظہور ہوا جہاں لونڈیاں سمجھ کر بیٹیوں کوزندہ درگو کیا جاتا ، جہاںبیٹی کی پیدائش ایک بہت بڑا ظلم او جرم تھا ،اس نا انصافی اور جبر کے اندھیروں میںاسلام کی روشنیاں پھوٹیں اور حضور پاک نے ایک رول ماڈل بن کر ایک تجارت پیشہ خاتون سے شادی کر کے پیغام دیدیا کہ وہ خواتین کو با اختیار بنانے پر یقین رکھتے ہیں ، تجارت پیشہ اسلام کی پہلی خاتون نے تجارت سے جو سرمایہ کمایا وہ اسلام کی ترویج پر خرچ ہوا ،اسی عورت کو جب ماں کا درجہ دیدیا گیا تو وہ دعاﺅں کا مرکز بن گئی اور اس کے پاﺅں کے نیچے جنت رکھ دی گئی ،جب حضرت فاطمہ نے بیٹی کا روپ دھارا تو وہ صبر او ر استقلال کا پیکر بن گئی ،جب حضرت عائشہ صدیقہ کی شکل میں بیوی کے روپ میں آئی تو وفا کی دیوی بن گئی ، جب سارے رشتوں سے جڑا عورت کا مشترکہ تقدس وقار او رشناخت کی بات آئی کہ وہ دنیا کی طاقتور ہستی بن گئی ،اس نے اپنی کوکھ سے پیغمبروں کو جنم دیا ،آج اسلام کا اہم رکن حج اس وقت تک مکمل قرار نہیں دیا جاتا جب تک صفا اور مروا کے درمیان سعی نہ کی جائے اور یہ بھی خاتون کی کوشش سے جڑا پہلو ہے ، اسلام میں عورت کا اس سے زیادہ اور کیا تقدس ہو سکتا ہے۔ڈ ا کٹر فر دوس عا شق عوان نے کہا کہ قرآن پاک کی صورت میں ایک ایسا چارٹر آف ہیومن رائٹس آیا جو پوری دنیا میں نسخہ کیمیائی بن گیا ، اقوام متحدہ کاجو ٹائٹل لکھا ہے اس میں جوچارٹر آف ڈیمانڈ رکھی گئی ہے وہ قرآن کے اندر درج ہے، قرآن نے سب سے پہلا چارٹر آف ہیومن رائٹس پیش کیا اور جب ہیومن رائٹس کی بات آتی ہے، اس میں ویمن رائٹس سر فہرست ہیں ،جب تک آپ اچھے انسان نہیں بن سکتے آپ جینڈر پر بات نہیں کر سکتے ، اس کی تفریق کے بغیر ہی معاشرے طاقتور بنتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم ان روایات کے امین ہیں جس معاشرے میں آپ کا بھائی ،بیٹا اور باپ آپ کو سپورٹ کرتا ہے ،باپ اپنے حصے کا پیٹ کا ٹ کر تعلیم دیتا ہے ،اپنی بیٹیوں کی حفاظت کرتا ہے اور مشکل ترین معاشی حالات سے نمٹنے کیلئے تیار کرتا ہے اور یہ ایک تصویر کا رخ ہے۔ ا نہو نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ اس معاشرے میں دوسرا رخ بھی ہے جو اسلام کے ساتھ جڑا رخ نہیں ہے ،یہ معاشرتی رخ کے ساتھ نا انصافی کے ساتھ جڑا رخ ہے ،جہاں جہالت کے اندھیرے ہیںاور جہاں میری بیٹیوں کا صرف اس لئے استحصال ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرتی رویے میں ٹھان لیا گیا کہ بیٹا وارث ہے ، یہ معاشرتی رویہ ہے کہ ایک خاتون نو بیٹیاں پیدا کر دیتی ہے لیکن مرد کہتا ہے کہ مجھے وارث چاہیے ،مجھے بیٹا چاہیے جب تک بیٹا پیدا نہیں ہوگا اس خاتون پر ظلم اور ستم جاری رہے گا کہ تم نے مجھے ہر حال میں بیٹا دینا ہے ، ہمارے معا شرے میں بیٹے کو طاقت اورسپورٹ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، معاشرے کے اندر رویوں میں یہ شامل تھا کہ بیٹی میرے اوپر بوجھ بنے گی جبکہ بیٹا بڑھاپے کا سہارا بنے گا لیکن آج دنیا بدل چکی ہے ، دنیا کے رویے بدل چکے ہیں اور نئے پاکستان کے اندر پاکستان کی 80فیصد کی سوچ بدل چکی ہے اور اب بیٹے اور بیٹی میں کوئی تفریق نہیں کرتے ، بیٹیوں نے اپنی صلاحیوں سے ثابت کرنا ہے کہ بیٹا نہیں ہوگا تو بیٹی اس کی طاقت بن سکتی ہے ،بیٹی کواچھی تعلیم ملے ، اس کی کیپسٹی بلڈنگ ہو، اسے سماج اور حکومت تحفظ دے تو وہی بیٹی اس قوم کا قیمتی اثاثہ بن سکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری بیٹیوں نے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے ،افوج پاکستان میںمیری بیٹیاں بیٹھی ہیں ،پائلٹ ہیں ،ڈاکٹرز بھی ہیں اورمشکل ترین آرمڈ فورسز میں کمانڈو بھی ہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ا نہو ں نے کہا کہ مجھے اندازہ ہے کہ معاشرے میں تبدیل لانے کے لئے ابھی ہمارا سفر ادھورا ہے، ہم نے جدوجہد کرتے رہنا ہے ، عورت کے حقوق کے نام پر، عورت کے نام پر اور عورت مارچ کے نام پر جس قسم کے سلوگن دیکھے گئے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے جو چیز میری بیٹی کیلئے ٹھیک نہ ہو ہم قوم کی بیٹی کیلئے اس کی حوصلہ افزائی کریں،حدود کا تعین ہو چکا ہے او رمجھے پتہ ہے کہ چادر اور چار دیواری کو پامال کئے بغیر دنیا میرے سامنے کھلی ہوئی ہے ، میں جس سمت میںچاہوں آگے بڑھ سکتی ہوں ،وزیراعظم او رموجودہ حکومت کی جانب سے یقین دلاتی ہوں کہ آپ کے اندر چھپا ہوا جوٹیلنٹ ہے جو انمول ہیرے ہیں جن کو کبھی کسی نے نہیں تراشا، ہم نے اسے سامنے لانا ہے ، ہم نے اس مائنڈ سیٹ کو بدلنا ہے ، ہمارا نظریہ واضح ہونا چاہے ،ہم نے آپ کو با اختیار بنانا ہے جو حقیقی منزل ہے اس کی طرف لے کر چلنا ہے ،اس کی طرف قرآن اور سنت سے رہنمائی لے کر جانا ہے، ادھر ا±دھر دیکھ کر نہیں چلنا، ہمارے لئے فاطمہ جناح رول ماڈل ہیں ، قیام پاکستان میں جن خواتین نے کردار ادا کیا آج ان کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے ،ان کے ساتھ تجدید عہد کا دن ہے ،سب ماﺅں کو سلام کرنے کا دن ہے ،آج کے دن ماﺅں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جو پہلی یونیورسٹی تھیں جس نے میری تربیت میںیہ ڈال دیا کہ میری ذمہ داریاں ، حقوق اور فرائض کیا ہےں۔انہوں نے کہا کہ آج کچھ لو گ سڑکوں پرحقوق مانگنے نکل رہے ہیں ،جس پاکستان میں ہم حق مانگ رہے ہیں اس پاکستان کا بھی ہم پر حق فرائض ہیں۔ ہم نے جب توازن پیدا کرنا ہے تو پاکستان نے آگے بڑھنا ہے۔ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ اگر آج کے دن میں کشمیر کی بیٹیوں کا ذکر نہ کروں تو یہ دن مکمل نہیں ہوتا، ہم نے خواتین کے حقوق کے جو ادارے ہیں ان کی توجہ ان کشمیری بیٹیوں کی بے حرمتی کی طرف دلانی ہے ، ان کے ضمیر کوجھنجھوڑ کر بتانا ہے کہ دنیا میں کہیں انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے ،اقوام متحد ہ اور اس کے ادارے احرکت میں آتے ہیں لیکن چار ماہ کا عرصہ گزر گیا ہے وہ ادارے کشمیر کی بیٹیوں کی بے حرمتی پر کیوں خاموش ہیں ، انہیں وہاں انسانی حقوق پامالی کیوں نظر نہیں آرہی ،پاکستان میں خواتین کے حقوق کیلئے بے چین تنظیموں کو کشمیر میں عورتیں کیوں نظر نہیں آتیں، یہ تنظیمیں کیوں متحرک نہیں ہو رہیں،وہاں خواتین نو لاکھ بھارتی فوجیوں کی قیدی ہیں ،بین الاقوامی تنظیمیںاور میڈیا کیوں متوجہ نہیں ہو رہا ، کیا وہاں پر مذہبی ،انسانی ،آئینی اور بنیادی حقوق کو قتل نہیں کر دیا گیا ۔ انہوں نے کہا کہ قاتل مودی کا گریبان کس نے پکرنا ہے ، اقوام متحدہ کیوں آنکھیں بند کر کے بیٹھی ہے۔