کنو کی فصل، زر مبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ

کنو کی فصل ،زر مبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ
کنو کی فصل ،زر مبادلہ کے حصول کا اہم ذریعہ

(رپورٹ: محمد زبیر)
پاکستان بہت سی قدرتی نعمتوں سے مالامال ہے‘ متنوع موسمیاتی زونز کے حامل وطن عزیز میں اعلی معیار کی زرعی اجناس اور مختلف اقسام کے پھل وافر پیدا ہوتے ہیں‘انہی پھلو ں میں ترشاوہ پھل اپنے ذائقہ اور افادیت کے لحاظ سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔دنیا میں رقبے کے لحاظ سے ترشاوہ پھل دوسرے نمبر پر آتے ہیں اور پاکستان ترشاوہ پھل پیدا کرنے والے پہلے15 ممالک میں سے ایک ہے۔ کنو کے پھل کو ان ترشاوہ پھلوں میں ذائقہ کے لحاظ سے ایک منفرد حیثیت حاصل ہے، کنوغذائی اور طبی خصوصیات کی وجہ سے اہم مقام رکھتا ہے۔کنو وٹامن سی کا بہترین ذریعہ ہے۔اس کے جوس میں وٹامن سی اور شوگر کے ساتھ ساتھ آئرن‘مینگانیز‘زنک اور کاپربھی پائے جاتے ہیں۔ماہرین طب کے مطابق اس کا جوس صاف خون پیدا کرتا ہے‘امراض دل کے لئے مفید ہے‘مقوی معدہ و جگر ہونے کی وجہ سےفرحت بخش ہےجبکہ قوت مدافعت میں اضافہ بھی کرتا ہے۔ دنیا بھر میں کنو کی پیداوار کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک میں کنو کی پیداوار کا جائزہ لیں تو برازیل میں کنو کی اوسطا سالانہ پیداوار 16713534ٹن ہے اور اس کا دنیا بھر میں کنو کی پیدوار میں سب سے زیادہ 22.16 فیصد حصہ ہے‘اسی طرح چین میں کنو کی پیداوار 9103908ٹن اور اس کا حصہ 12.07 جبکہ پاکستان میں کنو کی پیداوار2500000ٹن اور اس کا حصہ2.11 فیصد ہے۔

دنیا بھر میں کنو کی پیداوار کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مختلف ممالک میں کنو کی پیداوار کا جائزہ لیں تو برازیل میں کنو کی اوسطا سالانہ پیداوار 16713534ٹن ہے اور اس کا دنیا بھر میں کنو کی پیدوار میں سب سے زیادہ 22.16 فیصد حصہ ہے‘اسی طرح چین میں کنو کی پیداوار 9103908ٹن اور اس کا حصہ 12.07 جبکہ پاکستان میں کنو کی پیداوار2500000ٹن اور اس کا حصہ2.11 فیصد ہے۔

پاکستان کے صوبہ پنجا ب کے شہر سرگودھا کا کنو خوبصورتی‘ذائقہ اور لذت میں بے مثل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سرگودھا کنو کی کل پیداوار کا 96 فیصد پیدا کرتا ہے۔لاکھوں ایکٹر پر محیط یہ باغات نہ صرف غذائی ضرورت پوری کرتے ہیں‘اربوں روپے کا زرمبادلہ کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ ہر سال یہ باغات ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی فراہم کرتے ہیں۔پنجاب میں بھلوال اور سرگودھا کے علاقوں کی زیادہ تر معیشت کنو کی کاشت پر منحصر ہے‘ اس خطے میں کنو کے تقریباً 250 پروسیسنگ مراکز موجود ہیں جو 250000افراد کو روزگار فراہم کر رہے ہیں۔ سرگودھا، فیصل آباد، ساہیوال اورلیہ کنو کی کاشت کے لحاظ سے اہم اضلا ع ہیں جبکہ کنو صوبہ سندھ میں ضلع سکھر، نواب شاہ اور خیر پور‘ صوبہ خیبرپختونخواہ میں پشاور، مردان، سوات، ہزارہ، نوشہرہ اور صوابی میں جبکہ صوبہ بلوچستان میں سبی، مکران اور کیچ کے علاقوں میں بھی کاشت کیا جاتا ہے۔اس فصل کا شمار درمیانی اورزیادہ منافع بخش فصلوں میں ہوتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایک زرعی ملک ہونے کی باوجود پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور دیگر عوامل کے باعث کنو کی پیداوار متاثر ہورہی ہے.زرعی ماہرین کے مطابق کنو کے اکثر باغات اپنی طبعی عمر پوری کرچکے ہیں‘مقامی کاشتکار کنو کی نئی اقسام لگانے کامناسب علم نہیں رکھتے ہیں جس سے مستقبل قریب میں کنو کی صنعت اور برآمدات کو بڑے نقصان کا اندیشہ بڑھ رہا ہے۔ پنجاب کینو کی پیداوار کا مرکز ہے اس لیے کینو کے معیار کی بہتری اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر خصوصی توجہ درکار ہے، چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ذریعے چین جیسی وسیع منڈی تک رسائی آسان ہوچکی ہے جس سے پھل اور سبزیوں کی چین کو برآمدکے بھرپور مواقع پیدا ہوئے ہیں پاکستانی کنو کے کاشتکار اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ کینو کی برآمد میں اضافہ کیا جاسکے۔

 

ڈائریکٹر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف سٹریس ریسرچ محمد نواز خان میکن نے اس حوالے سے “اے پی پی ” کو بتایا کہ کہ ہمارا ادارہ پنجاب بھر میں کسانوں کی رہنمائی اور سٹرس کی فصل کی بہتری کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ سٹریس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں کسانوں کو ہارٹیکلچر‘زمین کی تیاری‘بیماریوں سے بچاؤ‘بہتر پیداوار سمیت دیگر تمام ضروری رہمنائی ایک ہی چھت تلے فراہم کی جارہی ہے۔انہوں نے کہاکہ سٹرس کے باغات کے کسانوں کو چاہیے کہ بہتر پیداوار کے لئے جاری ہدایت پر عمل کریں۔انہوں نے کہاکہ کنو دیگر سٹرس پھلوں کے مقابلے میں اپنے ذائقہ کے لحاظ سے منفرد اور معیاری پھل ہے‘اور زیادہ رقبہ پر کاشت کیا جارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہمارے زرعی سائنسدانوں نے اب تک سٹرس کی10 کے قریب مختلف اقسام تیار کر کے ان کو رجسٹرڈ کر لیا ہے‘کنو کا پھل پوٹھوہار اور جنوبی پنجاب کے علاقوں بھکر‘لیہ‘ڈی جی خان اور رمنکیرہ وغیرہ میں بھی کاشت کیا جارہا ہے اور امید ہے کہ بہت جلد سرگودھا کی طرح جنوبی پنجاب میں کنو کی بہتر پیداوار حاصل ہو گی اور اس کو برآمد کر کے مزید زرمبادلہ کمایا جا سکے گا۔انہوں نے کہا کہ اس وقت پورے پنجاب میں تقریبا 5 لاکھ ایکڑرقبے پر کنو کاشت کیا گیا ہے اور صرف سرگودھا میں 2.5 لاکھ ایکڑ پر کنو کی کاشت کی گئی ہے۔ محمد نواز خان میکن نے کہاکہ کنو کی سالانہ پیدا تقریبا25لاکھ ٹن ہے‘پاکستان سے کنوروس‘یوکرائن‘انڈونیشیا‘سری لنکا‘فلپائن‘خلیجی ممالک‘ متحدہ عرب امارات‘ایران‘سعودی عرب‘تاجکستان اور ازبکستان سمیت 50 ملکوں کو برآمد کیا جاتا ہے‘روس سب سے زیادہ پاکستانی کنو کا خریدار ملک ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کل پیداوار کا 15 سے 20 فیصد کنو برآمد کیا جاتا ہے اور اس سے کم و بیش 400ملین امریکی ڈالر زرمبادلہ کمایا جاتا ہے۔

 

مقامی کاشتکار محمد آصف نے کہا کہ کنو کی بہتر فصل حاصل کرنے کیلئے کنو کی بہتر قسم اور زمین کی زرخیزی کا بہتر ہونا ضروری ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک سال کے دوران کنو کی فصل پر 50 فیصد خرچ اور 50 فیصد منافع حاصل ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کنو کے باغات لگانے سے پہلے مکمل معلومات ہونا ضروری ہیں‘ حکومت کنو کے کاشتکاروں کو ہر ممکن رہنمائی فراہم کررہی ہے اور ہم اس رہنمائی پر مکمل طور پر عمل کر کے بہتر منافع حاصل کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر حکومتی سطح پر کنو کے کاشت کاروں کو اسی طرح سبسڈی اور سہولیات فراہم ہوتی رہیں تو اس سے مزید زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

لاہور چیمبر آف کامرس کی قائمہ کمیٹی برائے فروٹس و ویجیٹیبلز کے کنوینئیراحمد رمضان نے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ گزشتہ سال کی نسبت اس سال پاکستان میں کنو کی پیدوار بہت زیادہ ہو ئی ہے اور اس سال کنو کی برآمد بھی گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہے لیکن اس بارفصل پر بیماری کے حملے کی وجہ سے کنو کی معیاری پیداوارنہ ملنے اور کووڈ-19کی بناءپر کنوکی پراڈکٹ کے بین الاقوامی سطح پرمطلوبہ ریٹ نہیں مل سکے، حکومت کو چاہئیے کہ کنو کی برآمد میں پیدا ہونے والی مشکلات کو دور کرے کیونکہ بعض ائیر لائنز کمپنیوں کی اجارہ داری،شپنگ چارجز میں اضافے کی وجہ سے کنو کی برآمدات میں مشکلات بڑھ رہی ہیں جبکہ ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن کی سرٹیفیکیشن فیس میں کمی کی ضرورت ہے اور کارگو کی لوڈنگ ان لوڈنگ کے ضمن میں موزوں پالیسی وضع کی جائے تاکہ پراڈکٹ کے نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔

 

 زرعی ماہرین کے مطابق کنو کے برآمد کنندگان حکومت کی جانب سے سہولیات میں اضافے اور مسائل میں کمی ہونے سے پاکستان کی اس سوغات کو دنیا بھر میں پہچانے کے لئے سرگرم عمل ہیں جس سےنہ صرف زرمبادلہ بڑھےگا بلکہ کاشتکاروں کی محنت کے نتیجہ میں زرعی ترقی کے ہدف کا حصول ممکن ہو گا اور ہم اللہ تعالی کے فضل و کرم سے کنو سمیت دیگراہم فصلوں کی پیدوار میں اضافہ کرنے میں کامیاب ہوں گے، اس طرح کاشتکار‘باغبان ۔خوشحال ہوں گے اور ملکی معیشت مستحکم ہو گی۔