جی سی ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس "اقبال اور فیض: صدائے ماضی و ضیائے فردا”

81
GC Women University Sialkot
GC Women University Sialkot

سیالکوٹ۔22دسمبر (اے پی پی):گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ میں شعبہ اردو اور اوورِ ک کے اشتراک سے دو روزہ عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ پہلے روز وائس چانسلر گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ پروفیسر ڈاکٹر شازیہ بشیر نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے اقبال اور فیض کی فکری اور ادبی وراثت پر روشنی ڈالی۔ کلیدی خطبہ معروف دانشور رانا اعجاز احمد نے پیش کیا، جنہوں نے اقبال کی "خودی” اور فیض کے "انسان دوست” نظریات کو عصرِ حاضر کے تناظر میں اجاگر کیا۔

مہمانان اعزاز میں نصرملک (ڈنمارک )،شفیق مراد (جرمنی )اور غوثیہ سلطانہ (شگاگو)سے اورمختلف مقالہ نگاروں نے اقبال کی انقلابی شاعری اور فیض کے جمالیاتی شعور پر سیر حاصل گفتگو کی، جب کہ سامعین نے مکالمے کی صورت میں دلچسپ سوالات بھی کیے۔ پہلے دن نوجوان محققین اور ماہرین نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے، جن میں اقبال کے فلسفۂ خودی، فیض کی مزاحمتی شاعری، اور ان دونوں عظیم شعرا کے درمیان فکری ہم آہنگی کو موضوع بنایا گیا۔اختتامی نشست میں اس بات پر زور دیا گیا کہ اقبال اور فیض کی شاعری نہ صرف ماضی کی صدائیں ہیں بلکہ مستقبل کی روشنی بھی ہیں، جو قوم کو رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔

دوسرے روز کانفرنس کی اختتامی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ابتدائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر افضال بٹ نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور وائس چانسلر کا شکریہ ادا کیا۔تقریب کے مہمان خصوصی معروف دانشوار اور ماہر اقبال ڈاکٹر سید تقی عابدی تھے ۔کلیدی خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مجھے رشک ہے اقبال اور فیض کے شہر میں واقع ویمن یونیورسٹی میں اس طرح کی محفل کا اہتمام کیا گیا ہے۔

انہوں نے علامہ اقبال کے فارسی اشعار کی تشریخ کرتے ہوئےکہا کہ ہم سب کو ضمیر کی روشنی میں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے ۔انہوں نے علامہ اقبال کے شعر جوانوں کو سوز جگر بخش دے میں طالبات کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال بیداری دل پر توجہ دیتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ قرآن ایسے پڑھو کہ دل پر نازل ہوا ،قرآن سمجھنے کے لئے پہلے عاشق رسول بنیں۔علامہ اقبال پر تحقیقی کام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اب تک 7ہزار کتابیں اور 2ہزار تھیسس لکھے جا چکے ہیں مگر یہ تحقیقی کام ان کی شخصیت کا ابھی تک 10فیصد سے بھی کم ہے ۔فیض احمد فیض پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ فیض نے اقبال کی رباعی کا ترجمعہ کیا اور فارسی میں نعت لکھی جس میں انسانوں کے حقوق پامال کرنے والوں کو روز محشر سزا کا تصور دیا گیا ہے۔

 مہمان اعزاز الازہر یونیورسٹی مصر کے لیکچرر فیض اورمحمود درویش کے کلا م میں یکسانیت پر اپنا تحقیقی مقالہ پیش کیا ۔ ڈاکٹر صائمہ ارم کا کہنا تھا کہ ہر خطے کی تاثیر ہوتی ہے اور سیالکوٹ کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں د و بڑے اذہان پیدا ہوئے جن کے کلام کا اثر آنے والو والے کئی صدیوں تک رہے گا ۔ صدر شعبہ فارسی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر بابرآسی کا کہنا تھا کہ فیض اور اقبال آفاقی شاعر ہیں آفاقی شاعر کا کلام اپنے زمانے کی نہیں بلکہ آنے والے زمانے کے لیے ہوتا ہے ۔

مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر شازیہ بشیر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اورکانفرنس کے کامیاب انعقاد پر شعبہ اردو کو کا مبارکباد پیش کی ۔طالبات کو نصیحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سیالکوٹ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں آپ اقبال کے شاہین بنیں اور ہم آپ کو وہ تمام مواقع فراہم کریں گے جس سے آپ اپنے شہر ا ور اپنے ملک کا نام دنیا میں روشن کر سکتے ہیں ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم امام بی بی کیمپس میں ایک ایسا سٹیٹ آف دی آرٹ اقبال سینٹر بنائیں گے جہاں علامہ اقبال سے متعلق تمام کتب اور اشیاءکو محفوظ بنائیں گےتا کہ اقبال پر ہمہ وقت تحقیق کو فروغ ملے

، اس کے ساتھ ساتھ اقبال ڈیجیٹل لائبریر ی کا قیام کریں گے تا کہ دنیا بھر سے کوئی اقبال کا چاہنے والا شہر اقبال میں آئے تو وہاں لازمی جائے۔ تقریب کے اختتام پر مہمانوں کو یادگاری شیلڈز، مقالے پیش کرنے والے سکالرز اور منتظمین کو سرٹیفکیٹس پیش کی گئیں ۔ اختتامی تقریب میں ڈین فیکلٹی آرٹس اینڈ سوشل سائنسز پروفیسر ڈاکٹر یاسر منج ،جی سی یونیورسٹی لاہور ،لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف سیالکوٹ کے شعبہ اردوکےاساتذہ سمیت قومی اور بین الاقوامی نامور دانشور، ماہرینِ ادب اور طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی