صحت مند نئی نسل ہی کسی بھی ملک و قوم کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے، سیالکوٹ میں خصوصی انسداد پولیو مہم پر فیچر

مظفرگڑھ میں 2023 میں کوئی پولیو کیس رجسٹر نہیں ہوا ، ڈپٹی کمشنر

سیالکوٹ۔25اکتوبر (اے پی پی):صحت مند نئی نسل ہی کسی بھی ملک و قوم کے محفوظ مستقبل کی ضمانت ہوتی ہے،انسان نے جدید ریسرچ کی بدولت جن بیماریوں پر قابو پایا ان میں ایک نہایت خطرناک مرض پولیو کا بھی ہے جو پانچ سال تک عمر کے بچوں کو لاحق ہوتا ہے اورانہیں زندگی بھر کیلئے معذور بنا دیتا ہے تاہم بدقسمتی سے کرہ ارض پر پاکستان دنیا کے ان چند بدقسمت ممالک میں شامل ہے جہاں ابھی تک پولیو کا 100فیصد خاتمہ نہیں ہوسکا۔

پولیو کے خاتمہ کیلئے اہداف کے حصول میں پاکستان نے متعدد بڑے مسائل کے باوجود قابل ذکر کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم رواں صدی کی دوسری دہائی میں یہ مرض ایک بار پھر تیزی سے پھیلا اور بڑی تعداد میں بچے اس مرض سے متاثر ہوئے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت تک پولیو کے خاتمہ کیلئے مقرر کردہ اہداف کا وقت گذر چکا تھا یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کو بیرونی دنیا کی طرف سے کچھ پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا تاہم حکومت پاکستان، حکومت پنجاب کی شبانہ روز محنت کی بدولت صوبہ پنجاب میں صورتحا ل میں نمایاں بہتری آئی ہے،

ضلع سیالکوٹ جو گزشتہ ایک دہائی سے پولیو فری تھا یہاں خطرے کی گھنٹی اگست 2022میں بجی جب ڈبلیو ایچ او نے سیوریج کے پانی کے نمونہ جات ٹیسٹ کے لئے لیبارٹری بھجوائے اور ان میں پولیو وائرس کی موجودگی پائی گئی، اگرچہ ستمبر اور اکتوبر میں سیوریج کے نمونہ جات کی رپورٹ نیگٹو آئی ہے تاہم ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی تجویز پر حکومت پنجاب نے ضلع سیالکوٹ میں فوری طور پر خصوصی انسداد پولیو مہم چلانے کا فیصلہ کیا جس کا آج تیسرا دن ہے اور یہ مہم 28اکتوبر تک جاری رہے گی۔ خصوصی انسداد پولیو مہم کو موثر بنانے کیلئے ضلع سیالکوٹ میں 2676موبائل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں، ٹرانزٹ ٹیمیں اور فکسڈ ٹیموں کے ممبران بھی اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کیلئے سرگرم عمل ہیں۔

خصوصی انسدادپولیو مہم کو کامیاب بنانے کیلئے ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ عبداللہ خرم نیازی خود اس مہم کی نگرانی کر رہے ہیں، انکی ٹیم کے ممبران ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز رضوان محمود،سید ہ آمنہ مودودی، شاہد عباس، اسسٹنٹ کمشنرز ماہم مشتاق، ماہین فاطمہ، سفیان دلدار، سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر احمد ناصر، ڈی ایچ اوز، ڈی ڈی ایچ اوز بھی سرگرم ہیں جبکہ ڈبلیو ایچ او کے ڈاکٹر قیصر اور ڈاکٹر یاسر بھی ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کی مدد کرر ہے ہیں اور سب کی کوشش ہے کہ ضلع میں پانچ سال تک عمر کے 6لاکھ70ہزار کے قریب بچوں کو پولیو کی ویکسین پلانے کا ہدف سو فیصد مکمل کیا جائے۔

پولیو کے اسباب پر نظر ڈالی جائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ پولیو کا مرض ایک خطرناک وائرس سے پھیلتا ہے جو بچوں میں قوت مدافعت کم ہونے کی وجہ سے انہیں زندگی بھر کیلئے معذور بنا دیتا ہے۔ پولیو وائرس جسم کاایک وائرل انفیکشن ہے جو پیرالائیز اور سانس لینے میں مشکل کا باعث بن سکتا ہے یہ وائرس متاثرہ انسان کے فضلے سے پانی میں چلا جاتا ہے اور اس ہی لیے ایسی جگہوں پر زیادہ دیکھنے میں ملتا ہے جہاں سیوریج کا نظام بہتر نہ ہو بدقسمتی سے پولیو کا مکمل علاج ابھی تک دریافت نہ ہو سکا ہے، یہی وجہ ہے کہ پولیو کو کنٹرول کرنے کیلئے باقائدہ بار بار مہم چلائی جاتی ہے تاکہ حملہ سے پہلے اس وائرس کو روکا جاسکے پاکستان کو پولیو فری بنانے کیلئے حکومتی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے اور اس سے بچاؤ کیلئے احتیاطی تدابیر بھی ہمیں ازبر ہوچکی ہیں عوامی سہولت کیلئے پولیو کے قطروں کی با آسانی ہر گھر تک فراہمی کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔

انسداد پولیو مہم کو موثر بنانے کیلئے ضلعی سطح پر انسانی وسائل میں اضافہ کیا گیا ہے، گزشتہ برسوں کے دوران ایک موبائل ٹیم دن میں 120گھرانوں میں جاکر بچوں کو ویکسین پلانے کی ذمہ دار تھیں تاہم اب ان گھرانوں کی تعداد80کر دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے ان تمام اقدامات اور بھرپور آگاہی مہم کے باوجود بعض لوگ اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر اپنے بچوں کو ویکسین کے قطرے پلانے سے انکاری ہوجاتے ہیں ان کا یہ عمل معصوم بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے دو چار کرسکتا ہے۔

حکومت کی جانب سے پاکستان کو پولیو فری بنانے کیلئے مسلسل سنجیدہ کوششیں کی جارہی ہیں اور تسلسل کے ساتھ پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے پلانے کی مہم بھی جاری رہتی ہے۔ سیالکوٹ میں جاری رواں انسداد پولیو مہم خصوصی مہم ہے جس کی سو فیصد کامیابی کیلئے جہاں ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی فعال ہے وہیں والدین کی طرف سے بھرپور معاونت، علما کرام، میڈیا، این جی اوز، سول سوسائٹی کا تعاون بھی ناگزیر ہے کیونکہ اپنے بچوں کا صحت مند مستقبل ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

جیسا کہ اوپر کی سطور میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ ضلع سیالکوٹ گذشتہ کئی سال سے پولیو فری ہے، ملک میں پولیو کے کیسز کی تعداد بھی کم ہور ہی ہے اس مرض کے خاتمہ کی منزل اب زیادہ دور نہیں تاہم منزل تک پہنچنے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریاں نبھانا ہوں گی۔