موجودہ معاشی بحران سے نکلنا ہماری اولین ترجیح ہے،2022ء صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے مشکل سال ہے، آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد ہمارے لئے محفوظ راستہ ہے،وزیراعظم محمد شہباز شریف کا اکانومسٹ میں مضمون

جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب اور ملاقاتوں میں سیلاب سے پیدا ہونے والے انسانی المیہ بارے آگاہ کروں گا،وزیراعظم شہباز شریف

اسلام آباد۔15اگست (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنا ہماری اولین ترجیح ہے،2022ء صرف ہمارے لئے نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے مشکل سال ہے، آئی ایم ایف پروگرام پر عملدرآمد ہمارے لئے محفوظ راستہ ہے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری اور برآمدات میں کمی ہمارے معاشی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، ہماری جیسی جمہوریتوں میں سیاسی اختلافات ہمیشہ رہیں گے لیکن مالیاتی وسائل کے انتظام، عوام پر سرمایہ کاری، میرٹ، جدت اور علاقائی امن کے فروغ جیسے اصولوں پر سمجھوتے ہونے چاہئیں، لوگوں کو عوامی خدمت کے بدلے میں منصفانہ طور پر ٹیکس ادا کرنا چاہئے، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، ”پنجاب سپیڈ” جیسے جذبہ کے ساتھ کام کریں تو پورا ملک ”پاکستان سپیڈ” سے ترقی کرے گا۔

معروف برطانوی جریدے اکانومسٹ میں ایک مضمون میں وزیراعظم نے کہا کہ عالمی برادری اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے، ایک طرف اشیاء ضروریہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا چیلنج درپیش ہے، دوسری جانب امریکہ کو تاریخی مالیاتی خسارے جبکہ یورپ کو جنگ کا سامنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے اندرونی مسائل کا بھی سامنا ہے جنہیں پچھلے پانچ عشروں کے دوران حل نہیں کیا گیا اور انہی مسائل کی وجہ سے ہمیں کئی بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ تین نمایاں مسائل کے باعث ہمارا ترقی کا سفر متاثر ہوا ہے، 80ء کی دہائی کے بعد سے تین بنیادی ڈھانچہ جاتی مسائل کی وجہ سے ہماری ترقی اور نمو آگے نہیں بڑھ سکی، پہلا، ہمارا سیاسی ماحول شدید منقسم ہو رہا ہے، ملک کو غربت سے نکالنے اور بہتر پاکستان کیلئے مکالمہ کی بجائے سیاسی جماعتیں باہم متصادم ہیں۔ دوسرا، تعلیم، صحت اور بنیادی ڈھانچہ پر زیادہ رقم خرچ نہیں کی گئی، اس سے سرکاری رقوم کے خرچ کرنے میں ہماری ترجیحات کا پتہ چلتا ہے،

اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ طویل مخاصمانہ تعلقات اور روس اور پھر امریکہ کی افغانستان میں مداخلت اور لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی پاکستان منتقلی سمیت ہمارے ہمسائے میں پیدا ہونے والی صورتحال نے بھی ان مسائل کو پیچیدہ بنایا ہے۔ تیسرا، ہمیں لوگوں، مصنوعات، سرمائے اور آئیڈیاز کے آزادانہ تبادلے کے ذریعے عالمگیریت کے ثمرات سے مستفید ہونے میں بھی رکاوٹیں درپیش رہی ہیں اور عالمی سطح پر دوست بنانے اور دوست برقرار رکھنے کی صلاحیت پچھلے کچھ عرصہ کے دوران کمزور ہوئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستانی کمپنیاں مسابقتی فضاء میں کام کرنے کی بجائے مقامی سطح تک محدود ہیں،

آج پاکستان دنیا میں سب سے زیادہ کھپت والے ممالک میں سے ایک ہے اور ہماری جی ڈی پی کے 90 فیصد سے زائد کی یہ کھپت ہے لیکن دوسری طرف ہم اپنی پیداوار کا صرف 15 فیصد خرچ اور صرف 10 فیصد برآمد کرتے ہیں، سالانہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم ہے، بدقسمتی سے یہ اعداد و شمار ہمارے اقتصادی نظام کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں، کسی کامیاب ملک نے اس طرح ترقی نہیں کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان 75 سال کا ہو گیا ہے، اب ہمیں سنجیدگی سے اپنا جائزہ لینا چاہئے، پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں پر ہر تین میں سے دو افراد کی عمر 30 سال سے کم ہے،

پاکستانی شہریوں کی فی کس سالانہ آمدنی 1798 ڈالر ہے، ہماری آبادی کے ہر تیسرے فرد کی یومیہ آمدن 3.20 ڈالر سے بھی کم ہے، پاکستان کی ایک چوتھائی سے بھی کم خواتین گھر سے باہر کام کرتی ہیں، ہماری آبادی کا ایک تہائی حصہ مکمل ناخواندہ ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ معاشی بحران سے نکلنا ہماری اولین ترجیح ہے، ہماری فوری ترجیح اپنے موجودہ معاشی بحران سے محفوظ طریقے سے نکلنا ہے، اس بحران میں ہم اکیلے نہیں ہیں، پوری دنیا کو ایک مشکل سال کا سامنا ہے لیکن ہمارے پاس آئی ایم ایف کے پروگرام کا تحفظ ہے، اگرچہ کچھ اقدامات مشکلات پیدا کریں گے اور قربانی کی ضرورت ہو گی، ہم پروگرام پر عملدرآمد کرنے کے لئے پرعزم ہیں، یہ ہمارے لئے محفوظ راستہ ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ یہ مشکل لمحہ ہمیں ایک موقع بھی فراہم کرتا ہے، اگر ہم معاملات کو درست کر لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اپنی تقدیر نہ بدل سکیں، پاکستان کی سمت کیلئے اتفاق رائے ہونا چاہئے، ہمارے جیسے جمہوری ممالک میں سیاسی اختلافات ہمیشہ رہیں گے لیکن چند اصولوں پر سمجھوتہ ہونا ضروری ہے جن میں اپنے مالی وسائل کا دانشمندی سے انتظام کرنا، اپنے لوگوں میں سرمایہ کاری کرنا، میرٹ اور جدت کی حوصلہ افزائی کرنا اور علاقائی امن کو فروغ دینا شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اگلے عشرے کے دوران جنوبی ایشیاء میں 60 ملین مزید افراد متوسط طبقہ میں شامل ہوں گے، پاکستان میں ہر پانچ میں سے چار پاکستانی ڈیجیٹل طور پر موبائل فون کا استعمال کر رہے ہیں اور یہ چیز غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بتانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سماجی معاہدے کو جدید بنانا بھی ضروری ہے، لوگوں کو اہم عوامی خدمات کے بدلے ٹیکس کا اپنا منصفانہ حصہ ادا کرنا چاہئے، ہمیں اپنے نوجوانوں اور اپنی خواتین کے لئے بہتر کام کرنا چاہئے اور انہیں اپنی خواہشات کو پورا کرنے اور ہماری معاشی ترقی کا محرک بننے کے قابل بنانا ہو گا، ہمیں اس چیز کا واضح احساس ہونا چاہئے کہ ہماری قوم برداشت، سخت محنت، میرٹ اور سماجی انصاف جیسی اقدار کی پاسداری کرے اور ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک ذمہ دار اور جدید ملک کے طور پر دنیا میں مقام حاصل کرے۔

وزیراعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کی صورت میں دنیا کو ایک بڑے چیلنج خطرے کا سامنا ہے، یہ وقت مل کر آگے بڑھنے کا ہے، ہمیں بین الاقوامی سطح پر پرانے دوستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال اور مضبوط کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ کسی قوم کا ہمیشہ کے لئے عروج و زوال نہیں ہوتا،

میرے دور میں بطور وزیراعلیٰ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے میں، میں نے خود دیکھا کہ کس طرح حوصلہ افزاء ٹیلنٹ اور نئے آئیڈیاز، ڈیٹا اور شواہد کی بنیاد پر منصوبہ بندی اور عملدرآمد کی کڑی نگرانی لوگوں کی زندگیوں میں تیزی سے دیرپا بہتری کا باعث بن سکتی ہے، مثال کے طور پر، برطانیہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی کے ساتھ شراکت داری سے ہم پنجاب بھر کے سکولوں میں اساتذہ اور طلباء کی حاضری کو 35 فیصد سے زائد بہتر بنانے میں کامیاب رہے ہیں،کمپیوٹر ماڈلز کو استعمال کیا گیا اور ڈینگی بخار کے پھیلائو کو روکا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ تیز رفتار کامیابیاں بیرون ملک ”پنجاب سپیڈ” کے نام جانی گئیں، اگر اسی جذبہ کے ساتھ کام کیا جائے تو پورا ملک اتحاد اور تنظیم کے ساتھ ”پاکستان سپیڈ” سے ترقی کرے گا۔