وزارت منصوبہ بندی میں پاکستان نیچرل گیس پالیسی کے مسائل اور حل کیلئے اعلیٰ سطح کا اجلاس،طلب اور رسد کو بہتر بنانے کی سفارشات پیش کی گئیں

ای کامرس میں ہنر یافتہ نوجوان معاشی خود انحصاری حاصل کر کے ملک کی ترقی میں معاون کردار ادا کر سکتے ہیں، پروفیسر احسن اقبال
ای کامرس میں ہنر یافتہ نوجوان معاشی خود انحصاری حاصل کر کے ملک کی ترقی میں معاون کردار ادا کر سکتے ہیں، پروفیسر احسن اقبال

اسلام آباد۔26جنوری (اے پی پی):وزارت منصوبہ بندی کے انٹیگریٹڈ انرجی پلاننگ (آئی ای پی) کی جانب سے تیار کردہ “پاکستان نیچرل گیس پالیسی کے مسائل اور حل کے لئے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا جس کا مقصد ملک میں قدرتی گیس کی پیداوار، درآمد اور فراہمی کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینا تھا جس کے بعد مختلف سطحوں پر قلیل مدتی اور طویل مدتی پالیسی مداخلتوں کے ذریعے گیس کی طلب اور رسد کو بہتر بنانے کی سفارشات پیش کی گئیں۔

اجلاس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی پروفیسر احسن اقبال، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر خان اور تیل و گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا)سمیت توانائی کے شعبے کے مختلف اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ گزشتہ برسوں کے دوران قدرتی گیس کی پیداوار 2010 میں ایم ایم سی ایف ڈی 4,063 کے مقابلے 2021 میں کم ہو کر 3,505 ایم ایم سی ایف رہ گئی ہے جبکہ مقامی گیس کے ذخائر کم ہونے کی وجہ سے 2021 کے آخر میں 20,951 بلین سی ایف ٹی کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ قدرتی گیس کی پیداوار 2030 تک سکڑ کر 2,306 ایم ایم سی ایف ڈی ہو جائے گی اور طلب میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا حالانکہ حکومت نے 2011 میں رہائشی/خصوصی کمرشل (روٹی تندور) کنکشن کے علاوہ نئے کنکشن پر پابندی لگا دی تھی۔ اجلاس میں گیس کی قیمتوں کے تعین کے ممکنہ طریقہ کار پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جو تیار کیا جا سکتا ہے۔ صارفین کی قیمتیں جن پر دو سال میں نظر ثانی کی جانی تھی، ان پر بروقت نظر ثانی نہیں کی جا سکی جس کی وجہ سے روپے کا ٹیرف فرق جمع ہو گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ جون 2022 تک 577 بلین روپے آر ایل این جی کی قیمت ماہانہ طے کی جاتی ہے اور اوگرا کی طرف سے مطلع کیا جاتا ہے۔

وفاقی وزیر احسن اقبال نے توانائی کے تحفظ کی ضرورت پر روشنی ڈالی جس میں گیس ایک اہم جز و ہے۔ انہوں نے ملک میں کم قیمت اور پائیدار گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو درپیش مشکلات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ انکا کہنا تھا کہ بین الاقوامی سطح گیس کی قیمتیں بہت زیادہ مہنگی ہو رہی ہیں اور گھریلو گیس کے ذخائر کم ہو رہے ہیں۔ انہوں نے عوام میں قدرتی گیس کے موثر استعمال کے بارے میں میڈیا میں آگاہی کی بھی ضرورت ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے آئی ای پی کے حکام کو ہدایت کی کہ وہ اپنی تحقیق اور سفارشات کو 15دن کے اندر قدرتی گیس پالیسی تجزیہ رپورٹ کی صورت میں حتمی شکل دیں۔وفاقی وزیر احسن اقبال نے ترکمانستان افغانستان-پاکستان-بھارت ا (تاپی) گیس پائپ لائن اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی ترقی پر بھی ملک کے لئے گیس کی فراہمی کے ممکنہ ذریعہ کے طور پر تبادلہ خیال گیا۔اجلاس میں مزید بتایا گیا کہ رہائشی کنکشن میں اضافہ کو دسمبر 2021 تک نہیں روکا گیا تھا، کھانا پکانے کے مقاصد کے لئے گھریلو گیس کی کھپت 20,000 ایم ایم سی ایف ٹی ماہانہ پر مستقل رہی تاہم جنوری میں یہ کھپت 51,600 ایم ایم سی ایف ٹی تک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

اجلاس کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ جنوری میں space heating damand کی طلب 24,631 ایم ایم سی ایف ٹی تھی اور water heating کے لئے یہ 6,271 ایم ایم سی ایف ٹی تھی جس سے گھریلو سیکٹر میں گیس کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔اجلاس میں وفاقی وزیر دستگیر خان نے کہا کہ پاور سیکٹر میں قدرتی گیس کے استعمال میں اضافہ سے بجلی کے نرخوں میں زبردست کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اجلاس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ قطر گیس کے ساتھ موجودہ طویل مدتی معاہدوں میں 2026 میں معاہدے پر نظرثانی کی ایک شق شامل ہے جس میں قیمت کی حد پر نظر ثانی بھی شامل ہے اور سپلائر ایل این جی کی ڈیلیوری لاگت میں اضافے کا مطالبہ کر سکتا ہے یا صرف معاہدے سے ہٹ سکتا ہے۔

اس لیے پاکستان کو طویل المدتی ایل این جی کی درآمد کے نئے معاہدوں میں داخلے کے عمل کو تیز کرنا چاہئے۔ اجلاس میں ایل این جی کے درآمدی انفراسٹرکچر میں بہتری پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس میں ایل این جی ٹرمینل میں توسیع اور ری گیسی فیکیشن کی صلاحیت، گیس کے ختم ہونے والے ویل ہیڈز میں درآمدی گیس ذخیرہ کرنے کے امکانات اور نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

متعلقہ حکام نے اجلاس میں تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت گیس ذخیرہ کرنے کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی ملک کے لیے مالی طور پر قابل عمل نہیں ہے، اس کے بجائے کم ترین اسپاٹ مارکیٹ ریٹ پر ایل این جی کی تجارت کے آپشن پر غور کیا جا سکتا ہے، جو عالمی سطح پر ایک مقبول تصور بنتا جا رہا ہے۔ مزید برآں یہ بھی تجویز دی گئی مہنگی سطح کے گیس کے ذخیرہ کے آپشن کے بجائے ( salt cavern) پر گیس ذخیرہ کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے جس کی لاگت کم ہے۔

لہذا، اس طرح کے ذخیرہ کرنے کی لاگت اور علاقوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ایک فزیبلٹی اسٹڈی کی جا سکتی ہے۔ اجلاس میں قدرتی گیس کی تلاش اور پیداوار کی سرگرمیوں پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا کہ مناسب مراعات بشمول کنویں کی قیمتیں علاقائی ممالک کے ساتھ موازنہ کی جا سکتی ہیں۔