پاکستان میں ریگستانی اور پانی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے چھوٹے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے،فیچر

دریائے پنجکوڑہ 

پشاور۔23دسمبر (اے پی پی):ریگستانی اور خشک سالی حال ہی میں پوری دنیا میں ماحولیاتی اور زرعی ترقی کے ایک بڑے مسائل کے طور پر ابھری ہے، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کیوجہ سے قدرتی وسائل خصوصا قابل استعمال پانی کے انحطاط کی وجہ سے حیاتیاتی پیداوار خطرے میں ہے۔ 195 ممالک میں سے پاکستان سمیت 110ریاستوں میں تقریبا 2ًملین افراد اور دنیا کی دو تہائی زرعی اراضی بنیادی طور پر پانی کی کمی کی وجہ سے زمینی کٹائو، خشک سالی اور صحرائی ہونے کا شدید خطرہ ہے۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں زمین کی تنزلی، خشک سالی اور ریگستانی ہونے کی وجہ سے ہر سال 42 بلین امریکی ڈالر کا معاشی نقصان اور 60لاکھ ہیکٹر پیداواری زمین ضائع ہو رہی ہے، اس طرح مجموعی زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے اور غذائی تحفظ کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ سابق صوبائی کوآرڈینیٹر سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ پروگرام(ایس ایل ایم پی فیزٹو)نے کہا کہ پاکستان میں 79.6 ملین ہیکٹر اراضی میں سے تقریبا 70 فیصد بنجر سے نیم بنجر، 50.88 ملین ہیکٹر رینج لینڈ اور صرف 22ملین ہیکٹر زمین زیر کاشت ہے۔انہوں نے کہا کہ تقریبا 1.5 سے 2.5 ملین ہیکٹر سیراب شدہ زمین، 3.5 سے 4 ملین ہیکٹر بارش پر مبنی زرعی اور 35 ملین ہیکٹر رینج لینڈز خشک سالی، زمین کی کٹائی اور صحرائی ہونے کی وجہ سے سالانہ یا تو بنجر یا غیر پیداواری ہو رہی ہیں۔

ایس ایل ایم پی فیزٹوپروگرام جو کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مشترکہ شراکت داری کے ساتھ یو این ڈی پی اور گلوبل انوائرمنٹ فسیلٹی(جی ای ایف)کی مالی مدد سے شروع کیا گیا، نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے مغربی خشک پہاڑوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر ختم ہو رہے ہیں ۔نیشنل واٹر پالیسی 2018 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان ڈیموں کی کمی کی وجہ سے بتدریج پانی کی کمی کی طرف بڑھ رہا ہے جو مستقبل قریب میں تمام جانداروں کیلئے غذائی عدم تحفظ کا باعث بن سکتا ہے۔

پالیسی کے مطابق فی کس سطح پانی کی دستیابی 1951 میں 5,260 مکعب میٹر سالانہ سے کم ہو کر 2016 میں تقریبا 1,000 کیوبک میٹر رہ گئی ہے اور یہ مقدار 2025 تک مزید کم ہو کر 860 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔اس نے متنبہ کیا کہ ملک میں زیر زمین پانی کی صورتحال زیادہ تر پنجاب اور سندھ میں مزید گرنے کی توقع ہے، جہاں ایک ملین ٹیوب ویل اس وقت تقریبا 55 ملین ایکڑ فٹ (ایم اے ایف)زیر زمین پانی کو آبپاشی کیلئے پمپ کر رہے ہیں جو کہ اس سے دستیاب اس سے 20 فیصد زیادہ ہے۔

پالیسی کے نتائج کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا کے ترجمان اورممبر خیبرپختونخوا اسمبلی اختیار ولی نے پی ٹی آئی کی حکومت پر اپنی ناقص توانائی اور معاشی پالیسیوں کا الزام لگایا جس نے ملک کو توانائی اور گیس کے بحران میں دھکیلنے کے علاوہ درآمدی بل کو 27 ارب ڈالر تک بڑھا دیا۔انہوں نے کہا کہ 800 میگاواٹ کی صلاحیت والے مہمند ڈیم اور 4500 میگاواٹ کی گنجائش والے دیامیر بھاشا ڈیم پر پی ٹی آئی کی حکومت نے غیر ضروری طور پر تاخیر کی جس کے نتیجے میں بجلی اور گیس کی طلب اور رسد کے فرق میں ہوشربا اضافہ ہوا جس نے ملک کو لوڈ شیڈنگ میں دھکیل دیا،اگر دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم بنائے جاتے اور گیس اور متبادل بجلی کے وسائل تیار کیے جاتے تو آج پاکستان 50,000 میگاواٹ سستی بجلی حاصل کر چکا ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ دوسرے مرحلے میں 2015 میں مزید 200 دیہات شامل کیے گئے جس کے تحت جون 2020 میں منصوبے کے بند ہونے سے قبل تقریبا چھ لاکھ ایکڑ اراضی کو بارش پر مبنی زراعت اور پانی کے تحفظ کے پروگراموں کے تحت لایا گیا۔محکمہ آبپاشی کے سمال ڈیمز کے ترجمان انجینئر فخر عالم خان نے کہا کہ اللہ تعالی نے پاکستان کو بڑے، درمیانے اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے لیے اس کے مختلف دریاں پر قدرتی مقامات سے نوازا ہے، پاکستان کو 24 سے زائد بڑے اور چھوٹے دریا عطا کیے گئے ہیں جن میں پنجاب میں 5، سندھ میں 4، خیبرپختونخوا میں 8 اور بلوچستان میں7چھوٹے، درمیانے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر کیلئے بے شمار موزوں قدرتی مقامات ہیں،جن میں دریا دیامیر بھاسا، داسو کوہستان، دریائے سندھ پر کالاباغ، دریائے سوات پر مومند اور کالام، دریائے کابل پر شلمان خیبر، شمالی وزیرستان میں دریائے کرم پر تنگی، دریائے کنہار پر کاغان ناران کے متعدد ممکنہ مقامات شامل ہیں۔

انجینئر فخر عالم نے کہا کہ دنیا میں 46 ہزار کے قریب چھوٹے اور بڑے ڈیم بنائے گئے جن میں چین نے 22 ہزار 104، بھارت کے 5 ہزار 334 اور پاکستان نے اپنی آزادی کے بعد سے صرف 150 ڈیم بنائے۔انہوں نے کہا کہ چھوٹے ڈیم آسانی سے دو سے تین سال کے قلیل عرصے میں بنائے جاسکتے ہیں جب کہ بڑے ڈیموں میں زیادہ تر 10 سے 15 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 2050 تک اضافی 76 ایم اے ایف پانی کی ضرورت ہوگی جو چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیموں کی تعمیر سے ہی ممکن ہے۔

انجینئر فخر عالم نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں 37 چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنائے گئے جن میں سے 15 صوبائی حکومت کے زیر انتظام ہیں جبکہ 11 واپڈا کے زیر نگرانی اور 10 انضمام شدہ اضلاع میں بنائے گئے ۔انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے پی ایس ڈی پی پروگرام کے تحت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں 75,008 اے ایف کے 49,523 ایکڑ سی سی اے کے ساتھ 24 چھوٹے ڈیم بنائے جا رہے ہیں،وفاقی حکومت کی جانب سے لکی مروت میں پیزو ڈیم، کوہاٹ میں خٹک بندھن ڈیم، اور کرک میں مکھ بندہ ڈیم کی تکمیل کے علاوہ مانسہرہ میں اچھر اور منچورا ڈیم، کرک میں چشمہ اکوڑہ خیل ڈیم، ہنگو میں سروزئی ڈیم، صنم ڈیم کی تکمیل ممکن ہوئی،اسی طرح لوئر دیرباڈا ڈیم اور صوابی میں التاڈیم بھی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مشترکہ طور پر بنائے گئے۔

فخر عالم نے بتایا کہ خیبر میں باڑہ ڈیم، ٹانک میں ٹانک زم، شیخ حیدر زم، چودوان زم، درابن، اور ڈی آئی خان میں کورا نالہ سمیت سات درمیانے ڈیم اور ٹانک میں لارزن سمال ڈیم میں 520,884 AF پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جس میں 171,748 AF 171,748 C.میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ڈیزائن کے ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس پر عملی کام جلد شروع ہو جائے گا،سات درمیانے درجے کے ڈیموں کے ڈیزائن جن میں بارواسہ اور شیر درہ صوابی، سماری پایان کوہاٹ، سورخو وے مردان، نکی نوشہرہ، شہید بانڈہ چارسدہ اور تورا واڑہ کو مکمل کرلیا گیا ہے جن میں 14,935 ایکڑ سی سی اے کے ساتھ 13,014 اے ایف پانی ذخیرہ کرنے کی کل گنجائش ہے۔