پاکستان کی کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 80فیصد تک پہنچ گیا

ایسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان

فیصل آباد۔8مارچ (اے پی پی):جنوبی پنجاب کے ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان ڈویژنز پر مشتمل مرکزی علاقوں میں 83فیصد،فیصل آباد، ساہیوال ڈویژنز کے ثانوی علاقوں میں 15 فیصد، سرگودھا، گوجرانوالہ،لاہور، راولپنڈی ڈویژنز کے مارجنل علاقوں میں 2فیصد کپاس کاشت ہوتی ہے جبکہ پاکستان کی کپاس کی مجموعی ملکی پیداوار میں بھی پنجاب کا حصہ 80فیصد تک پہنچ گیاہے جہاں سالانہ 60لاکھ ایکڑکے قریب رقبہ پر کپاس کاشت کی جاتی اور یہاں سے فی ایکڑ 22 من پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

پاکستان کاٹن پروڈیوسرز اینڈ جننگ انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے بتایاکہ پاکستان دنیا بھرمیں کپاس پیدا کرنیوالے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہونے کے باعث معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کررہاہے۔انہوں نے کہاکہ کپاس موسم گرما کی فصل ہے جو گرمی کے موسم میں خوب پھلتی پھولتی ہے،پنجاب میں کپاس کی روائتی نان بی ٹی اقسام کی جگہ اب بی ٹی اقسام نے لے لی ہے،مئی اور جون کے مہینوں میں ان علاقوں میں زیادہ درجہ حرارت، گرم اور خشک ہوا مارچ کاشتہ اگیتی فصل میں پھل کے کیرے کا سبب بنتی ہے جبکہ بعض مقامات پر کپاس کی فصل اس لوسے جل کر مکمل طور پر ناکام ہو جاتی ہے۔

اسی طرح جولائی اگست میں بعض اوقات درجہ حرارت 50سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے جبکہ کپاس کی بی ٹی اقسام میں 40سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت پر پھول اور ڈوڈیاں دونوں خشک ہوکر گر جاتی ہیں جبکہ 45سینٹی گریڈ کا درجہ حرارت صوبہ میں کاشت ہونے والی تمام بی ٹی اقسام میں مکمل طور پر پھولوں اور ڈوڈیوں کے کیرے کا سبب بنتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ آمدہ اپریل سیزن کیلئے حکومت کی جانب سے جن اقسام کی کاشت کی منظوری دی گئی ہے ان میں آئی آر3701، علی اکبر703، ایم جی6، ستارہ008، نیلم121، علی اکبر802، آئی آر1524، جی این ہائبرڈ 2085، ٹارزن1، ایم این ایچ886، وی ایچ259، بی ایچ178، سی آئی ایم599،سی آئی ایم602، ایف ایچ118، ایف ایچ142، آئی آر نیاب824، آئی یو بی222، سائیبان201، ستارہ11ایم، اے555، کے زیڈ181، ٹارزن2 اور سی اے 12 وغیرہ شامل ہیں۔

دریں اثنا ماہرین زراعت کی جانب سیکپاس کے کاشتکاروں کو اگیتی بی ٹی اقسام کا80فیصد سے زائد اگاؤ کاحامل 6کلوگرام فی ایکڑ بیج استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی ہے اورکہاگیاہے کہ کاشتکار کپاس کی بی ٹی اقسام کی اگیتی کاشت کاآغاز اپریل میں کریں اور سفارش کردہ اقسام کا بر اتر اہوا بیج استعمال کریں تاکہ اچھی فصل حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ جامعہ زرعیہ فیصل آباد کے ماہرین زراعت نے کہاکہ کم درجہ حرارت پر بیج اگنے کا عمل سست، اگاؤ متاثر، پھپھوندی کے حملہ کاخدشہ زیادہ ہوتاہے جس سے ننھے پودے مر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ بیج کا اگاؤ پر کھنے کیلئے400 بیج کے نمونے کو پانی میں 6،7 گھنٹے کیلئے بھگو دیں اور دو نمدار تولیوں میں سے ایک کو سایہ دار جگہ یاکمرے میں صاف جگہ پر بچھا دیں اب اس پر بھیگے ہو ئے بیج کے سوسو دانے گن کر چار جگہوں پر علیحدہ علیحدہ بکھیر دیں اور دوسرے نمدار تولئے یا بوری سے اس بیج کو ڈھانپ دیں۔ انہوں نے کہاکہ دن میں دو تین دفعہ ڈھکے ہوئے بیج پر پانی چھڑکتے رہیں تاکہ بیج کو اگنے کیلئے نمی ملتی رہے۔

اس طرح چار پانچ دن کے بعد اوپر والے تولئے یا بوری کواٹھا کر ہر ڈھیری سے اگے ہوئے بیج گن لیں اور انکی اوسط نکال لیں کیونکہ یہ بیج کا فیصد اگاؤ ہو گا۔انہوں نے کہاکہ جدید ٹیکنا لو جی کے پیش نظر بوائی سے قبل کپاس کے بیج کی بر اتارنا انتہائی ضروری ہے تا کہ بیج ڈرل کی نا لیو ں سے بغیر کسی رکاوٹ کے آسانی سے مطلوبہ گہرائی تک پہنچ کر اگاؤ کیلئے درکار نمی کو حاصل کر سکے جس سے نہ صرف بیج کا اگاؤ بہتر ہو گا بلکہ پودوں کی مطلوبہ تعداد بھی حاصل ہوگی جوکہ اچھی پیداوار کیلئے خشت اول کی حیثیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ بر اترا بیج ہاتھ سے چو پہ لگانا آسان ہوتا ہے کیونکہ برپربہت سی بیماریوں کے جراثیم ہوتے ہیں جو کہ اترنے کے ساتھ ہی تلف ہو جاتے ہیں اوربر اتارنے سے بیج ڈرل کی نا لی میں سے بآسانی مطلوبہ جگہ پر پہنچ جا تا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر بیج کو مختلف بیماریوں اور رس چوسنے والے کیڑوں سے بچانے کیلئے زہر لگانا مقصود ہو تو بردار بیج کی نسبت زہر کم لگتا ہے اور نتائج بھی بہتر حاصل ہوتے ہیں۔