ڈوزیئر ۔۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس : بھارتی جرائم کی حقیقت کو پرکھنے کا سنجیدہ موقع

اسلام آباد۔23ستمبر (اے پی پی):بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 25ستمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں اپنی حکومت کی کامیابیوں کے بارے میں عالمی برادری کو اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کریں گے تاہم بھارت کے بارے میں ان کی یہ تمام چکنی چپڑی باتیں اور ”کارناموں“ کے دعوے ان گھنائونے جرائم پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہوگی جو حکمران بی جے پی نے اقلیتوں اور بالخصوص کشمیری مسلمانوں کے خلاف روا رکھے ہوئے ہیں۔

بھارتی وزیراعظم جو انتہاپسند آر ایس ایس اور ہندو توا کے سخت گیر نظریے کے پیروکار ہیں، کو ملک کے اندر سخت تنقید کا سامنا ہے جہاں سیاسی بنیادوں پر انتقامی کارروائیوں، ہراساں کئے جانے کے واقعات اور مخالفین کو کچلنا ایک معمول بن چکا ہے۔ نریندر مودی کے لئے صورتحال زیادہ گھمبیر بن چکی ہے، جیساکہ ان کے خطاب سے چند روز قبل پاکستان نے بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں 90 ہزار قابض بھارتی افواج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی صریح، منظم اور بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کو واضح ثبوتوں کے ساتھ بے نقاب کیا ہے۔

پاکستان کے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے 12 ستمبر کو ایک جامع ڈوزیئر جاری کیا اور دنیا کے سامنے وہ ثبوت پیش کئے جو جنگی جرائم ، انسانیت کے خلاف جرائم اور معصوم شہریوں کے قتل عام پر محیط ہیں۔ 131 صفحات پر مشتمل اس ڈوزیئر میں بھارتی فوج کے جنگی جرائم‘ کشمیریوں کی مقامی جدوجہد اور بھارت کے فالس فلیگ آپریشن کے علاوہ بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں سے انحراف اور بین الاقوامی قوانین کو پس پست ڈال کر مقبوضہ وادی میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی لانے کی کوششوں کے بارے میں الگ الگ باب رقم ہیں۔ دستاویزمیں نشاندہی کی گئی ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 5اگست 2019 کے بعد انسانی حقوق کی صورتحال مزید بگڑچکی ہے ۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی بھارت کی جانب کشمیر میں پابندیوں بارے رپورٹس پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور خبر دار کیا تھا کہ اس سے خطے میں انسانی حقوق کی صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔’’بھارت میں مذہبی آزادیوں‘‘ کے بارے میں امریکی کانگریس کی بریفنگ میں ہیومن رائٹس واچ کا تازہ ترین مصدقہ بیان وزیراعظم نریندر مودی کیلئے ایسے موقعے پر ایک کڑوی گولی ہےجب وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس کے موقع پر امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ نے بریفنگ میں بی جے پی حکومت کے انسانی حقوق کے بارے میں ہولناک ریکارڈ پیش کیا جس میں بھارت میں مذہبی اقلیتوں پر بھارتی حکومت کی یلغار پر کڑی تنقید کی گئی ہے۔ ’’حقائق واضح ہیں کہ ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد بھارت میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے، بی جے پی کے رہنمائوں اور اس سے منسلک گروہوں نے طویل عرصہ سے اقلیتی برادریوں کو قومی سلامتی اور ہندو طرز زندگی کیلئے خطرہ قرار دے کر انہیں نشانہ بنایا اور بدنام کیا ہے اور بالخصوص ریاستی اور قومی انتخابات میں ہندو ووٹ حاصل کرنے کیلئے مسلمانوں کے خلاف منافرت انگیز بیانات دیئے جاتے ہیں، بی جے پی کی حکومت نے ایسے قوانین اور پالیسیاں اختیار کی ہیں جو مسلمانوں اور حکومت کے ناقدین سے منظم طور پر امتیازی سلوک پر مبنی ہیں‘‘۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جموں و کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں سب سے پرانے حل طلب تنازعات میں سے ایک ہے اور گزشتہ سات دہائیوں سے بھارت مظالم کے ذریعے کشمیریوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے 2018 اور 2019 میں جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی دو الگ الگ رپورٹس میں طاقت کے بے جا استعمال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے کئی خصوصی نمائندوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال کو “فری فال” اور مواصلاتی ناکہ بندی اور کرفیو کو “جموں و کشمیر کے لوگوں کیلئے اجتماعی سزا ” قرار دیا ہے۔رپورٹ کا سب سے خطرناک حصہ جنگی جرائم کی تفصیلات پر مشتمل ہے جو متاثرین کی شہادتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی متعدد آزاد تحقیقاتی رپورٹس پر مبنی ہے۔

وزارت خارجہ کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کے بڑے پیمانے پر جنگی جرائم،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں،جعلی مقابلوں،جعلی فلیگ آپریشنز اور خواتین کی بے حرمتی کے حوالے سے جاری جامع ڈوزیئر کے مطابق بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کے چھ اضلاع میں 8652اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں۔2014کے بعد اب تک 239ٹارچر سیلوں میں 29988کشمیریوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ 3850 خواتین کا ریپ ،650 خواتین کو قتل کیا گیا۔2017 سے اب تک بھارتی قابض فورسز نے پابندی کے باوجود کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے 37 بے گناہ کشمیریوں کو زندہ جلا دیا ۔

اگست ۔ستمبر 2019میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی انتظامیہ نے بھارتی سپریم کورٹ میں نو سالہ بچے سمیت 144بچوں کی غیر قانونی حراست کا اعتراف کیا۔ 8سے 10ہزار تک افراد کو لاپتہ کر دیا گیا جن میں 2500نیم بیوائیں( ہاف وڈوز) شامل ہیں۔2014سے اب تک پیلٹ گنز کے استعمال سے 120کشمیریوں کو شہید،1253کو بینائی سے محروم اور 15438کو زخمی کر دیا گیا۔نام نہاد سرچ آپریشنز کے نام پر اجتماعی سزائیں دینے کیلئے 15495آپریشنز کئے گئے اور 6479املاک کو تباہ کیا گیا۔پانچ اگست کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد فوجی محاصرے کے دوران 9987آپریشنز کئے گئے اور بچوں کو گرفتار اور لڑکیوں کو حراساں کیا گیا۔

بھارتی قابض فورسز کی جانب سے ایل او سی پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنائپر اور کلسٹر ایمونیشن کے استعمال سے 198افراد شہید اور 1049 زخمی ہوئے۔بھارتی مظالم نے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی اسلحہ اٹھانے پر مجبور کر دیا۔2016کے بعد اب تک جدوجہد آزادی کشمیر کے دوران 72تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان شہید ہوئے،ان میں دس پی ایچ ڈیز،ایم فل،15ماسٹرز اور 47گریجویٹ شامل ہیں۔اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے 80جعلی مقابلوں میں 160بے گناہ کشمیری شہید کر دیئے گئے۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق بھارتی حکومت پہلے ہی پرامن کارکنوں کو جیلوں میں بند کرنے کیلئے انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال اور غداری سمیت دیگر سنگین الزامات عائد کرتی رہی ہے۔دنیا نے بھارتی قیادت کے دوغلے پن کا نوٹس لینا شروع کر دیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جنگی جرائم ، نسل کشی اور تشدد کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کرے اور مجرموں کو کٹہرے میں لائے۔