اتحادی حکومت کی اجتماعی بصیرت اور دانشمندانہ حکمت عملی سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے میں معاون ، بروقت ریلیف اور بحالی کے اقدامات کو یقینی بنایا گیا

120

اسلام آباد۔14دسمبر (اے پی پی):ملک کے مختلف حصوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں حالیہ طوفانی بارشوں سے وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی جس سے ملک کا تقریبا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا ، دونوں صوبوں میں کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں ، سڑکوں اور پلوں کا ڈھانچہ متاثر ہونے سے سیلاب متاثرہ علاقوں تک رسائی ختم ہوگئی ۔وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت نے محدود وسائل اور مشکلات کے باوجود اجتماعی بصیرت اور دانشمندانہ حکمت عملی سے نہ صرف سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں قیمتی جانوں کو بچایا بلکہ بروقت ریلیف اور بحالی کے اقدامات کو یقینی بنایا ، جون 2022 سے شروع ہونے والی کاوشیں تسلسل کے ساتھ 6 ماہ تک جاری رہیں ،انہی کاوشوں کی بدولت سیلاب کی تباہ کاریوں کے نقصانات سے نمٹنے میں مدد ملی ۔

وقت ضائع کیے بغیر، حکومت نے نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کوآرڈینیشن سینٹر (این ایف آر سی سی ) قائم کیا جس میں وفاقی اسٹیک ہولڈرز، صوبائی حکومتوں اور پاکستان کی مسلح افواج کے نمائندے شامل تھے۔ اس فورم کا مینڈیٹ مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے نمٹنے کے لئے قومی کاوشوں کی نگرانی اور اس عمل کو موثر بنانا تھا ۔صوبوں میں صوبائی پی ڈی ایم ایز کے ذریعے ایک موثر کوآرڈی نیشن قائم کیا گیا تاکہ شراکت داری میں بہتر ی لائی جاسکے ۔ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کے ساتھ شراکت داروں کے درمیان ہم آہنگی سے بروقت اور موثر معلومات کے تبادلے کو یقینی بنا کر ضلعی سطح تک مربوط تعاون یقینی بنایا گیا ۔حالیہ مون سون کے دوران بڑے پیمانے پر سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے انسانی جانوں، املاک اور بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ۔

حکومت پاکستان کی قیادت میں اقوام متحدہ اور انسانیت کی خدمت کے شراکت داروں کے تعاون سے متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مدد کی گئی ۔ سیلاب سے تقریباً 33 ملین لوگ متاثر ہوئے جو امدادکے منتظر ہیں دوسری جانب اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی برادری نے 2022 کے پاکستان فلڈ رسپانس پلان کے تحت اگلے چھ ماہ کے دوران پاکستان میں تقریباً 5.2 ملین افراد تک پہنچنے کا ارادہ کیا ہے ۔وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ تباہی کا پیمانہ اتنا بڑا تھا کہ پہلی بار پاک بحریہ کے دستوں کی سب سے بڑی اندرون ملک فیلڈ تعیناتیوں کے ذریعے امدادی اور ریسکیو کارروائیاں کی گئیں ۔

وفاقی وزیر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں غیر معمولی موسمیاتی سیلاب سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ناقابل تصور پیمانہ ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آفات کی شدت تمام پچھلی آب و ہوا کی آفات سے کہیں زیادہ ہے ۔وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ پاکستان تباہ کن سیلاب کے بعدمتاثرہ علاقوں کے لوگ اپنے جانی اور مالی نقصانات کے بعد افسردہ ہیں ، ان سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا ۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک میں 2010 اور 2011 میں سیلاب آیا لیکن ایک دہائی کے بعد وہی ہوا جب کہ اگر ہمیں وہی چیزیں دہرانی پڑیں تو یہ گورننس ماڈل میں غلط ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا ہماری مدد کرے یا نہ کرے ہمیں اپنے محدود وسائل کے اندر اپنے لوگوں کی مدد کرنی پڑے گی۔

پاکستان میں سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 32 بلین ڈالر ہے اور دنیا کا تخمینہ 16 بلین ڈالر ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کتنے فنڈز اکٹھے ہونگے ۔وزیر مملکت برائے خزانہ و محصولات ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب نے بہت زیادہ معاشی نقصانات اٹھائے ہیں، 50 لاکھ سے زائد حاملہ مائیں بے گھر ہیں اور کھلے آسمان تلے ہیں جو کہ ایک بڑی آزمائش ہے ، اقوام متحدہ اور ڈونر ایجنسیوں اور دوست ممالک نے امداد اور بحالی کی کوششوں میں مدد اور تعاون کیا۔سیلاب کے باعث ملک بھر کے مختلف علاقوں میں 1,739 اموات ہوئیں ، 12,867 افراد زخمی، 1,164,270 مویشیوں ہلاک اور 2,288,481 مکانات کو نقصان پہنچا۔ 84متاثر ہ اضلاع میں بلوچستان کے 32، گلگت بلتستان کے 9، خیبرپختونخوا کے 17، پنجاب کے تین اور سندھ کے 23 اضلاع شامل ہیں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے کوآرڈینیشن آف ہیومینٹیرین افیئرز کی پاکستان کی صورتحال کی رپورٹ حکومت، عطیہ دینے والے اداروں اور متعلقہ محکموں کی آفات کے بعد کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوششوں کا احاطہ کرتی ہے ۔سندھ اور بلوچستان کے صوبوں میں سطح سمندر سے نیچے کے علاقوں میں سیلابی پانی کے جمود نے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور وبائی امراض کے کے پھیلائو میں اضافہ کیا ۔ پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی سندھ نے دعویٰ کیا کہ 3 دسمبر تک صوبے میں ایک اندازے کے مطابق 240,000 لوگے بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ ستمبر کے اوائل میں یہ تعداد 6.5 ملین تھی ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے تقریباً 90 فیصد لوگ اپنی برادریوں یا رشتہ داروں کے ساتھ رہ رہے تھے جبکہ باقی خیمہ بستیوں اور ریلیف کیمپوں میں تھے۔

رپورٹ میں زور دیا گیا کہ چونکہ سیلابی پانی میں کمی کے بعد لاکھوں لوگ اپنے آبائی شہروں کو واپس چلے گئے ہیں لیکن ان علاقوں میں سروسز بہتر کیں جائیں تا کہ لوگ زراعت اور ذریعہ معاش کے لئے باآسانی کام کرسکیں ۔رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ ملیریا، ہیضہ، شدید پانی والے اسہال اور ڈینگی کے کیسز میں کمی آ رہی ہے۔یو این او سی ایچ اے تخمینے کا دعویٰ ہے کہ خوراک کی عدم تحفظ میں ناکامی سے 2023 کے اوائل میں اضافی 1.1 ملین افراد کو ہنگامی مرحلے (آئی پی سی 4) میں انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی میں داخل ہوجائے گا ۔ سندھ کے دادو، قمبر، شہداد کوٹ، خیرپور، میرپور خاص، جامشورو، سانگھڑ، عمر کوٹ، بدین، شہید بینظیر آباد اور نوشہرو فیروز جبکہ بلوچستان کے اضلاع صحبت پور اور جعفر آبادبددستور زیر آب ہیں ۔یو این او سی ایچ اے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر کی تصویروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ 80 لاکھ لوگ اب بھی ممکنہ طور پر سیلابی پانی سے متاثر ہیں یا سیلاب زدہ علاقوں کے قریب رہتے ہیں۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ بیشتر اضلاع میں ملیریا، ہیضہ، شدید پانی کے اسہال کی بیماریوں اور ڈینگی بخار کے کیسز کم ہو رہے ہیں۔مجموعی طور پر، اکتوبر کے شروع میں ملیریا کے 100,000 سے زیادہ تصدیق شدہ کیسز سے کم ہو کر تقریباً 50,000 ہو گئے ہیں۔ ملیریا کے کیسز میں بلوچستان میں 25 فیصد، خیبرپختونخوا (کے پی) میں 58 فیصد اور سندھ صوبوں میں 67 فیصد کمی آئی ہے۔ تاہم، سندھ اور بلوچستان کے کچھ اضلاع میں جہاں پانی کھڑا رہتا ہے وہاں ملیریا اور ہیضے کے زیادہ کیسز اب بھی رپورٹ ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ نومبر 2022 میں سیلاب سے متاثرہ صوبوں کے پی، سندھ اور پنجاب سے خناق کے تقریباً 70 مشتبہ کیسز رپورٹ ہوئے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے نومبر میں موسم سرما کے دوران زندگیوں اور بنیادی ڈھانچے کو بچانے کے لیے ایک فعال اقدام کے طور پر پہلی موسم سرما کی ہنگامی اور تیاری کی منصوبہ بندی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ متعدد دو طرفہ شراکت داروں نے زرعی پیداوار میں مدد کے لیے حکومت کو ہر قسم کی مدد فراہم کی۔ ترکش کوآپریشن اینڈ کوآرڈینیشن نے خوراک کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے سندھ کے آٹھ سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں تقریباً 700 چھوٹے درجے کے کسانوں کو 60 ٹن گندم کے بیج فراہم کیے ہیں۔ ٹیکا نے سندھ زرعی یونیورسٹی، ٹنڈوجام اور سندھ حکومت کے دیہی زراعت کی توسیع کے محکمے کے تعاون سے چھوٹے درجے کے کسانوں کو گندم کے بیج فراہم کیے تاکہ مقامی خوراک کی پیداوار میں اضافہ ہو۔

اس کے علاوہ جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی جائیکا نے صوبہ بلوچستان کے پانچ اضلاع نصیر آباد، جعفرآباد، صحبت پور، جھل مگسی اور کچھی میں سیلاب سے متاثرہ کسانوں کو 12,500 تصدیق شدہ گندم کے بیج کے تھیلے فراہم کیے ہیں۔یہ امداد 2500 سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو ربیع کے زرعی سیزن کے دوران گندم کی فصل کاشت کرنے کے قابل بنائے گی۔ بین الاقوامی اور قومی این جی اوز خوراک، صحت، نان فوڈ آئٹمز ، پانی، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کے حوالے سے لوگوں کی مدد جاری رکھے ہوئے ہیں۔پاکستان ہیومینٹیرین فورم کے اراکین نے 82 سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں خوراک، پناہ گاہ، تعلیم، این ایف آئی، واش، نقد رقم، صحت اور تحفظ میں انسانی امداد کے ذریعے 3.8 ملین افراد تک رسائی حاصل کی۔

پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی ، ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ فیڈریشن کے ذریعے 584,000 سے زیادہ لوگوں تک پناہ گاہ، صحت، واش، خوراک اور غیر خوراکی شعبوں میں جان بچانے والی امداد پہنچا چکی ہے۔ریڈکریسٹنٹ سوسائٹی نے پہلے مرحلے میں زندگی بچانے والی خوراک، پانی، طبی، اور پناہ گاہ کی امداد کو ترجیح دی لیکن اب صحت عامہ پر توجہ مرکوز کر رہا ہے ۔