اسلام آباد۔13نومبر (اے پی پی):قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم، پیشہ وارانہ تربیت، قومی ورثہ و ثقافت نے زور دیا ہے کہ اسلام آباد کے دیہی علاقوں کے سکولوں میں بھی جدید سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم، پیشہ وارانہ تربیت، قومی ورثہ و ثقافت کا اجلاس ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی کی زیر صدارت پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس (پی این سی اے ) میں منعقد ہوا۔اجلاس میں کمیٹی نے راوی انسٹی ٹیوٹ (آر آئی) ساہیوال بل، 2024″،یونیورسٹیز میں مستحق افراد کے لئے خصوصی نشستوں کی ریزرویشن بل 2024 اوردی نیکسس انٹرنیشنل یونیورسٹی آف ہیلتھ ایمرجنگ سائنسز اینڈ ٹیکنالوجیز بل 2024 کی تجاویز پر غور کمیٹی کے آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا تاہم کمیٹی نے ساؤتھ سٹی یونیورسٹی بل 2024 کو کچھ ترامیم کے ساتھ شامل کرنے کی سفارش بھی کی۔
قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم، پیشہ وارانہ تربیت، قومی ورثہ و ثقافت کی ذیلی کمیٹی کے کنوینئر نے اسلام آباد کے شہری اور دیہی علاقوں میں سکولوں اور ڈگری کالجوں میں تعلیم اور سہولیات کے معیار کو بڑھانے کے لئے رپورٹ پیش کی جس میں تعلیمی اداروں میں موجودہ خلا کی نشاندہی اور انہیں مزید بہتر بنانے کیلئے سفارشات پیش کیں۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں خاص طور پر دیہی علاقوں کے سکولوں کے مسائل پر روشنی ڈالی جس میں سے ایک بڑا مسئلہ اساتذہ کی کمی ہے، اساتذہ کی کمی کی بڑی وجہ بھرتی کے عمل میں تاخیر بتائی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اساتذہ کی کمی دیہی علاقوں کے سکولوں میں واضح ہے جہاں قابل اساتذہ کی فوری ضرورت ہے، مزید برآں رپورٹ میں بہت سے سکولوں میں آئی ٹی کے بنیادی ڈھانچے کی عدم موجودگی پر روشنی ڈالی گئی ہے
جس میں آئی ٹی لیبز اور کمپیوٹر اساتذہ کی کمی ڈیجیٹل تعلیم کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ یہ وسائل تمام دیہی سکولوں میں فراہم کئے جائیں تاکہ تمام طلباء کے لئے ٹیکنالوجی تک مساوی رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔رپورٹ میں کمیٹی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کچھ سکولوں میں بنیادی ڈھانچہ اب بھی ناقص ہے، پرانے بلیک بورڈز اب بھی استعمال میں ہیں، تدریسی حالات کو بہتر بنانے کے لئے کمیٹی نے ان بلیک بورڈز کو وائٹ بورڈز سے بدلنے کی سفارش کی ہے تاکہ سیکھنے کے بہتر ماحول کو آسان بنایا جا سکے۔ ان مسائل کی روشنی میں ذیلی کمیٹی نے کئی اہم سفارشات کا خاکہ پیش کیا ہے جن کا مقصد ان چیلنجوں سے نمٹنا ہے۔ سب سے پہلے وفاقی نظامت تعلیمات (ایف ڈی ای )کے لئے باقاعدہ ڈائریکٹر جنرل کی تقرری کا عمل فوری طور پر شروع کیا جانا چاہئے
تاکہ ڈائریکٹوریٹ کو مضبوط قیادت اور رہنمائی فراہم کی جا سکے۔ کمیٹی نے خاص طور پر دیہی علاقوں میں کمی کو پورا کرنے کے لئے اساتذہ کی بھرتی میں تیزی لانے کی ضرورت پر بھی زور دیا اور ایریا ایجوکیشن آفیسرز پر زور دیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ جن سکولوں میں فرنیچر، کمپیوٹرز اور دیگر ضروری وسائل کی کمی ہے انہیں فوری طور پر فراہم کیا جائے۔ذیلی کمیٹی نے سکولوں کی زیادہ موثر نگرانی اور وسائل کی تقسیم کو یقینی بنانے کے لئے نگرانی کے ایک بہتر نظام کے نفاذ کی سفارش کی۔ دیہی اسکولوں میں بنیادی ڈھانچے کے خلا کو دور کرنے کے لئے کمیٹی نے وزارت خزانہ سے مطالبہ کیا کہ وہ سکول کی سہولیات کی فوری بہتری کے لئے فنڈز مختص کرے۔ سکول مینجمنٹ کمیٹیوں کے کردار کو مضبوط بنانا بھی ایک ترجیح ہے کیونکہ ان کی فعال شمولیت سکول کے نظم و نسق کو بہتر بنانے کے لئے اہم ہے، ہیڈ ٹیچرز اور اساتذہ کے لئے باقاعدہ تربیتی پروگراموں کی سفارش کی گئی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ تدریسی تاثیر کو بڑھانے کے لئے درکار مہارتوں سے لیس ہیں۔
آخر میں کمیٹی نے تجویز کیا کہ ہیڈ ٹیچرز مقامی کمیونٹیز اور سکول مینجمنٹ کمیٹیز کے ساتھ زیادہ فعال طور پر مشغول ہوں تاکہ سکول سے متعلقہ چیلنجوں کو حل کرنے اور سکول کی مجموعی کارکردگی کو بہتر بنانے میں تعاون کریں۔ان اہم مشاہدات کو حل کرنے اور مجوزہ سفارشات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ذیلی کمیٹی کا مقصد دیہی سکولوں میں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا، بنیادی ڈھانچے کو بڑھانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ طلباء کو تعلیمی طور پر کامیاب ہونے کے لئے ضروری وسائل اور مدد تک رسائی حاصل ہو۔کمیٹی نے فنانس ڈویژن کی طرف سے وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت کو اضافی فنڈز مختص کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ یہ فنڈنگ اسکولوں میں بنیادی ضروریات اور خدمات کو پورا کرنے اور آئی سی ٹی تعلیمی اداروں میں سہولیات اور خدمات کے لحاظ سے دیہی اور شہری علاقوں کے درمیان فرق کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے۔
کمیٹی نے دیہی اور شہری دونوں سکولوں میں وزارت کی طرف سے 287 دیہی سکولوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے مختلف مداخلتوں کی تعریف کی۔ ان مداخلتوں میں 50 ڈیجیٹل ٹیکنالوجی لرننگ ہب، اساتذہ کی تربیت، انٹرایکٹو سمارٹ بورڈز، کروم بک لیبز، 16,000 طلباء اور 2,000 اساتذہ کو 30,000 گوگل ایجوکیشن پلس لائسنس تقسیم کئے گئے، 100 لیپ ٹاپ عطیہ کئے گئے، کوڈنگ اور AI فیلو شپس کا آغاز کیا گیا ۔ 32,000 طلباء کے لئے کھانا، کھیل 20,000 پرائمری طلباء کے لئے کٹس اور سولرائزیشن پروجیکٹس دیئے گئے ہیں، ان کوششوں کا مقصد دیہی اور شہری فرق کو کم کرتے ہوئے سہولیات، ڈیجیٹل رسائی اور مجموعی تعلیمی معیار کو بہتر بنانا ہے۔سیکرٹری نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر ڈویژن نے پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے بارے میں بریفنگ دی جو کہ پی این سی اے ایکٹ 1973 کے تحت قائم کیا گیا تھا جو کہ فنون و ثقافت کے فروغ کے لئے ملک کا صف اول کا ادارہ ہے۔
قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن کے تحت ایک خود مختار ادارے کے طور پرپی این سی اے پاکستان بھر میں فنکارانہ سرگرمیوں کو مربوط اور فروغ دیتا ہے۔ یہ مختلف ثقافتی مقامات، آرٹ اکیڈمیوں اور تہواروں کا انتظام کرتا ہے جبکہ فنکار یونینوں اور تعاون کے قیام کی حمایت کرتا ہے۔ پی این سی اے ثقافتی معاملات پر حکومت کو مشورہ دینے اور قومی اور بین الاقوامی ثقافتی معاہدوں کو نافذ کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
اجلاس میں ارکان اسمبلی ڈاکٹر عظیم الدین زاہد لکھوی ، انجم عقیل خان ، راجہ خرم شہزاد نواز ، سیدہ نوشین افتخار ، ذوالفقار علی بھٹی ، فرح ناز اکبر ،مسرت آصف خواجہ ، ڈاکٹر شازیہ ثوبیہ اسلم سومرو ، مہتاب اکبر راشدی ، مسرت رفیق مہیسر ، عبدالعلیم خان ، سبین غوری ، داور خان کنڈی ، اسامہ حمزہ ، محمد اسلم گھمن ، سید رفیع اللہ ، سید خورشید احمد شاہ ، چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن، سیکرٹری وزارت وفاقی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت، سیکرٹری قومی ورثہ اور ثقافت ڈویژن اور دیگر متعلقہ افسران نے بھی شرکت کی۔