افغان عوام کو انسانی بحران کا سامنا ہے ، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے او آئی سی کو افغانستان بارے متحرک کرنا قابل تعریف اقدام ہے، سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر

136
افغان عوام کو انسانی بحران کا سامنا ہے ، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے او آئی سی کو افغانستان بارے متحرک کرنا قابل تعریف اقدام ہے، سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر

اسلام آباد۔15دسمبر (اے پی پی):سابق سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر نے کہا ہے کہ افغان عوام کو انسانی بحران اور معاشی تباہی کی صورتحال کا سامنا ہے اور اس موقع پر سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے او آئی سی کو افغانستان کے حوالے سے متحرک کرنا قابل تعریف اقدام ہے، او آئی سی نے افغانستان کے حوالہ سے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے،سعودی عرب کی طرف سے افغانستان میں انسانی صورتحال سے نمٹنے کی کوششوں کی قیادت قابل تعریف ہے، طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کے متنازعہ اور مشکل عوامل سے فی الحال صرف نظر کرتے ہوئے افغانستان میں انسانی اور معاشی تباہی پر ٹھوس بین الاقوامی ردعمل تشکیل دیا جانا چاہیے۔

معروف سعودی اخبار عرب نیوز میں شائع ہونے والے اپنے مضموں میں انہوں نے کہاکہ سعودی عرب اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں کے نتیجہ میں 19 دسبر کو اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس کا مقصد افغانستان میں انسانی صورتحال کے حوالے سے تعاون کا مشترکہ فریم ورک تشکیل دینا ہے۔

گزشتہ اگست میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا اور طالبان کی عبوری حکومت کے خلاف مغربی ممالک کی پابندیوں کے نتیجہ میں افغان عوام کو انتہائی بڑے پیمانے پر انسانی اور معاشی تباہی کا سامنا ہے۔اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق افغانستان کی تین کروڑ 80 لاکھ آبادی کے 60 فیصد کو غذائی قلت کے بحران کا سامنا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ صورتحال خراب ہو رہی ہے۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 32 لاکھ افغان بچے شدید غذائی قلت کے خطرے سے دوچار ہیں۔اقوام متحدہ کے ہائی کمشن برائے مہاجرین کے مطابق افغانستان میں جنوری 2021 سے ستمبر 2021 تک 6 لاکھ 65 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ پہلے سے بے گھر 29 لاکھ افغان شہری ان کے علاوہ ہیں۔موسم سرما کی آمد نے صورتحال کو مزید خوفناک بنا دیا ہے۔

افغانستان سے آنے والی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کی رپورٹ مایوس کن صورتحال کی عکاسی کرتی ہیں۔برطانوی اخبار ٹیلیگراف کے مطابق بھوک کے باعث افغان شہری اپنے بچوں کو چھوڑ دینے پر مجبور ہیں۔

اخبار نے کہا ہے کہ افغانستان میں صورتحال کی خرابی کے علاقائی اور عالمی استحکام پر ممکنہ سنگین اثرات فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔اس پس منظر میں افغان عوام کی مدد کے لئے او آئی سی اور عالمی برادری کو متحرک کرنے کا سعودی عرب اور پاکستان کا اقدام قابل تحسین ہے ۔

یہ حقیقت ہے کہ عالمی برادری غریب افغان عوام کو بھوک، سردی اور امراض سے مرنے کے لئے محض اس لئے تنہا نہیں چھوڑ سکتی کہ افغانستان میں طالبان برسر اقتدار ہیں۔جب عام افغانوں کا حق زندگی ہی دائو پر لگا ہو تو افغانستان کی عبوری حکومت سے خواتین اور انسانی حقوق کے حوالے سے کئے جانے والے مطالبات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔

بعض مبصرین افغانستان کے حوالے سے امریکا اور مغربی ممالک کے رویئے کو انتقامی سیاست قرار دیتے ہیں۔یہ بات قابل فہم ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انسانی اقدار کا تعین کرنے والی ترقی یافتہ اقوام کے لئے طالبان کا اقتدار میں آناقابل قبول نہیں اور وہ ایسا کوئی اقدام نہیں کرنا چاہتیں جو طالبان کو تقویت دے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ افغان عوام کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑ سکتی ہے اوراصلی سوال طالبان کی ساکھ اور قانونی حیثیت نہیں بلکہ ریاست کو ناکام ہونے سےبچانا اور بڑی تعداد میں انسانوں کے مصائب و آلام میں مبتلا ہونے کو روکنا ہے۔

کسی بھی قوم کو اجتماعی سزا دینے کے عمل کو کوئی جواز فراہم نہیں کیا جا سکتا۔امریکا اور یورپی یونین کو اس حوالے سے اپنے موقف کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کو ضرورتمندوں تک پہنچانے کی اجازت دینے کی ضرورت ہے۔امریکا بھی افغانستان کے اثاثے منجمد کرنے کے اقدام پر نظر ثانی کرے اور افغان حکام کو بنیادی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے اسے 10 ارب ڈالر کے ریاستی زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی دے۔

طالبان کے عبوری وزیر اعظم اور وزیر خارجہ امریکا اور بین الاقوامی برادری سے بار بار اپیل کر چکے ہیں کہ انہیں ان کے زرمبادلہ کے ذخائر تک رسائی دی جائے، انہوں نے بنیادی انسانی حقوق، خواتین کے حقوق اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے ذمہ داریاں ادا کرنے پر آمادگی کا عندیہ بھی دیا ہے ۔

یہ بھی واضح ہے کہ داعش اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے طالبان سمیت تمام متعلقہ فریقوں کے حقیقی مفادات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔مناسب یہ ہوگا بڑی طاقتیں افغانستان کے حوالہ سے اہم اقدام کریں۔ علاقائی ممالک جو متعلقہ فریق ہیں، افغانستان کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے لئے کئے متعدد اجلاس منعقد کر چکے ہیں۔

سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے اٹھایا جانے والا حالیہ اقدام اس صورتحال سے نمٹنے کے اقدامات کو او آئی سی کے رکن 50 سے زیادہ ممالک تک وسعت دے گا۔او آئی سی نے افغانستان کے حوالہ سے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔

سعودی عرب کی طرف سے اففانستان میں انسانی صورتحال سے نمٹنے کی کوششوں کی قیادت قابل تعریف ہے، طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کے متنازعہ اور مشکل عوامل کو فی الحال صرف نظر کرتے ہوئے افغانستان میں انسانی اور معاشی تباہی پر ٹھوس بین الاقوامی ردعمل تشکیل دیا جانا چاہیے۔ عالمی برادری کو افغانستان پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔

یہ وقت افغان عوام کی مدد پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے تخلیقی سفارت کاری کا ہے جو ان کے بدقسمت ملک پر مسلط کی گئی جنگوں کی چالیس سالہ خونریزی سے بری طرح متاثر ہیں۔