قوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان نے متن میں تبدیلی کے مغربی اقدام کو شکست دینے کے لیے اردن کے امن مسودے کا بھرپور دفاع کیا

Munir Akram
Munir Akram

نیویارک ۔28اکتوبر (اے پی پی):اقوام متحدہ میں اسرائیل فلسطین تنازعہ میں “انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی” کا مطالبہ کرنے والی اردن کی قیادت میں متوازن مسودہ قرارداد کو اسرائیل کے حق میں جھکانے کی مغربی کو شیش قرارداد کے محرکین اور پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم کی متاثرکن تقرر کے باعث آخری لمحات میں ناکامی سے دوچار ہو گئیں ۔ کینیڈا نے، جسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ووٹنگ سے پہلے ایک ترمیم پیش کی جس کے مسودے میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل میں 7 اکتوبر کو شروع ہونے والے “حماس کے حملوں” اور شہریوں کو یرغمال بنانے کی مذمت کی جائے گی۔

جواب میں کینیڈا کے سفیر روورٹ راے نے ترمیم کے اسپانسرز کی جانب سے کہا کہ اگر اس زبان کو اردنی متن میں استعمال کیا گیا تو وہ سب اس کے حق میں ووٹ دیں گے۔ قرارداد کی حمایت کی پیشکش کا مقصد حماس کی بین الاقوامی مذمت کے لیے اسرائیلی دباؤ کی حمایت حاصل کرنا تھا۔اہم بات یہ ہے کہ بھارت، جو اب اسرائیل کا ایک اسٹریٹجک اتحادی ہے، نے اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا جو مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ، ترمیم کے حق میں 55 کے مقابلے میں 88 ووٹ ملے، 23 ارکان غیر حاضر رہے۔

دوپہر کے کھانے کے وقفے کے دوران قرارداد کے اسپانسرز نے مندوبین کے ساتھ لابنگ کی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ 193 رکنی اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کے لیے کافی تعداد میں حمایت حاصل کی جاسکے ۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے منیر اکرم نے اس ترمیم کو ناکام بنانے کی کوشش کی کیونکہ اسمبلی نے اس پر کارروائی کرنے کی تیاری کر لی تھی۔ مستقل نمائندے منیر اکرم نے اپنی ایک معقول تقریر میں تمام رکن ممالک سے اپیل کی کہ وہ کینیڈین ترمیم کی حمایت نہ کریں، جسے انہوں نے یک طرفہ، غیر مساوی اور غیر منصفانہ قرار دیا۔پاکستانی کے مستقل نمائندے نے جنرل اسمبلی ہال میں مندوبین کو بتایا کہ اگرچہ کینیڈین سفیر صرف حماس کا نام لینے پر اصرار کرتے ہیں، لیکن وہ 7000 فلسطینیوں کے قتل اور 17000 کو زخمی کرنے کے لیے اسرائیل کا نام لینے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کرتے۔ انہوں نے سوال کیا کہ صرف حماس ہی کیوں ۔ کیا یہ توازن ہے؟” سفیر منیر اکرم نے کہا کہ اگر آپ انصاف پسند ہیں، اگر آپ منصف ہیں

، تو آپ کسی ایک فریق کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے ۔ اسرائیل کے قبضے کو 50 سال ہو گئے ہیں جس نے فلسطینیوں کے قتل و غارت گری کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔سفیر اکرم نے مزید کہا کہ جب آپ لوگوں کو کونے میں دھکیلیں گے، تو وہ جواب بھی د یں گے ۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس کے اس تبصرے کو نوٹ کرتے ہوئے کہ موجودہ تنازعہ “خلا میں نہیں ہوا”، جس پر اسرائیلی سفارت کاروں کی جانب سے ان کی بے عزتی کے ردعمل کی شدید مذمت کی۔پا کستانی مندوب نے کہا کہ اسرائیلی نمائندے کی طرف سے کیا ردعمل آیا؟، جس میں سیکرٹری جنرل کی توہین کی گئی اور ان کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل سچائی اور انصاف کا سامنا نہیں کر سکتااور نہ ہی اس حقیقت کا سامنا کر سکتا ہے کہ جرم کی ابتداء اسرائیلیوں سے ہی ہوئی ہے۔اس معاملے میں اصل گناہ اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔ سات اکتوبر کو جو کچھ ہوا اس کی یہ وجہ نہیں بلکہ اصل وجہ فلسطین پر قبضہ ہے۔انہوں نے کینیڈین ترمیم کے حامیوں پر زور دیا کہ یہ ظاہر نہ کریں کہ آپ فلسطینی عوام کے خلاف متعصب ہیں جنہوں نے 50 سال کے قبضے کا سامنا کیا ہے ، یہ کہ آپ برابرہ کا مظاہر ہ کرتے ہوئے دونوں کا نام لیں گے یا آپ اس مسودہ قرارداد میں کسی کا نام نہیں لیں گے۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ ہمارا مقصد لڑائی کو روکنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آپ صرف اسرائیل میں اپنے رشتہ داروں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو نظرانداز کرتے ہیں کیونکہ وہ مختلف لوگ ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ کیا فلسطینی کسی ادنیٰ خدا کی مخلوق ہیں؟۔ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کینیڈا کے مطالبے کے حوالے سے سفیر منیر اکرم نے کہا کہ یہ متن ان تمام افراد کی رہائی کے لیے متوازن الفاظ میں بات کرتا ہے، جو نہ صرف اسرائیلی یرغمال ہیں بلکہ فلسطینیوں کے افراد بھی یرغمال بنائے گئے ہیں اور انسان ہونے کے ناطے ان کے بھی یکساں حقوق ہیں۔ پاکستانی مندوب منیر اکرم کے خطاب کے اختتام پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہال میں زوردار اور مستقل تالیاں بجائی گئیں ۔ ترمیم کی شکست کے بعد، جنرل اسمبلی نے 45 ترامیم کے ساتھ، 14 کے مقابلے میں 120 ووٹوں کے واضح فرق سے قرارداد منظور کرلی ۔ بھارت ان ممالک میں شامل تھا جو رائے شماری کے دوران غیر حاضر رہے۔

فرانس نے قرارداد کے حق میں ووٹ دے کر اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ صف بندی کر لی ۔فرانس کے سفیر نکولس ڈی ریویئر نے قرارداد کی منظوری کے بعد بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قرارداد کے حق میں اس لئے ووٹ دیا ہے کیونکہ “شہریوں کے قتل کا کوئی جواز نہیں بنتا”۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا ہوگا کیونکہ غزہ کی صورتحال تباہ کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ فرانس پہلے ہی امدای اشیاء پر مشتمل ایک بحری جہاز بھیج چکا ہے۔

قرارداد میں غزہ کی پٹی میں شہریوں کے لیے ضروری سامان اور خدمات کی “فوری، مسلسل، مناسب اور بلا روک ٹوک فراہمی” کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پانی، خوراک، طبی سامان، ایندھن اور بجلی ان تک محدود نہیں ہے ۔ یہ قراردادغزہ تک فوری، مکمل، پائیدار، محفوظ اور بلا روک ٹوک انسانی رسائی پر زور دیتی ہے۔یہ انسانی ہمدردی کی راہداریوں کے قیام اور غزہ کے شہریوں تک انسانی امداد کی فراہمی میں سہولت فراہم کرنے کے لیے دیگر اقدامات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اس سلسلے میں کوششوں کا خیرمقدم کرتی ہے۔