بحیرہ احمر میں کشیدگی میں اضافہ عالمی جہاز رانی کے لئے مشکلات پیدا کر رہا ہے،رپورٹ

Tensions in the Red Sea
Tensions in the Red Sea

صنعاء۔1فروری (اے پی پی):بحیرہ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں اور حوثیوں کے ٹھکانوں پر امریکی فضائی حملو ں کے باعث خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے جس سے اس اہم تجارتی راہداری کو استعمال کرنے والی بڑی کنٹینر کمپنیاں اپنے بحری جہازوں کا راستہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں جس سےان کے اخراجات میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی اور افریقی سپلائی چینز پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ شنہو ا کی رپورٹ کے مطابق بحیرہ احمر میں جغرافیائی سیاسی کشیدگی میں تقریباً تین ماہ سے اضافہ ہو رہا ہے۔

تجزیہ کاروں نے خبر دار کیا ہے کہ یہ صورتحال بحیرہ احمر کو انتقام اور جوابی انتقام کے لیے میدانِ جنگ بنا سکتی ہے جس سے نہ صرف یہ کہ خطے میں غیر متوقع واقعات پیش آسکتے ہیں بلکہ تنازعہ وسیع تر علاقے میں پھیل سکتا ہے۔یمن کے حوثی باغیوں کی طرف سے بدھ کو بحیرہ احمر میں ایک امریکی بحری جہاز پر کئی میزائل فائر کئے گئے ۔ اس اقدام نے عالمی جہاز رانی کو متاثر کیا ہے اور خطے میں وسیع تر تنازعے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔حوثیوں نے کہا کہ انہوں نے امریکی تباہ کن جنگی جہاز یو ایس ایس گریولی کو غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت اور یمن کے خلاف امریکی قیادت میں جارحیت کے جواب میں نشانہ بنایا۔

انہوں نے بحیرہ احمر اور بحیرہ عرب میں تمام امریکی اور برطانوی جنگی جہازوں کو جائز اہداف قرار دیا اور غزہ کا محاصرہ ختم ہونے تک اسرائیلی جہازوں کو بحیرہ احمر سے گزرنے سے روکنے کے عز م کا اظہارکیا۔حوثی اکتوبر کے آخر سے بحیرہ احمر سے گزرنے والے بحری جہازوں پر 30 سے زیادہ حملے کر چکے ہیں۔یمنی تجزیہ کار یاسین تمیمی نے کہا کہ حوثیوں کے پاس بحران کو طول دینے کے لیے اب بھی کافی طاقت موجود ہے کیونکہ امریکی فضائی حملوں نے ان کی صلاحیتوں کو بڑے پیمانے پر متاثر نہیں کیا۔

خطے میں کشیدگی میں اضافے سے سب سے زیادہ نہر سویز۔ المندب روٹ استعمال کرنے والے بحری جہاز اور جہاز راں کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں۔ اس عرصہ کےد وران سی ایم اے، سی جی ایم، ایم ایس سی، مائرسک جیسی بڑی جہازراں کمپنیاں نہر سویز کی بجائے کیپ آف گڈ ہوپ کا طویل راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو رہی ہیں جس سے ، اقوام متحدہ کی تجارت اور ترقی کے اعداد و شمار کے مطابق دو ماہ سے نہر سویز کے ذریعے روزانہ کی آمدورفت میں 39 فیصد اوریہاں سے گزرنے والے کارگو کے وزن میں 45 فیصد کمی آئی ہے۔اسی طرح بحیرہ احمر میں کشیدگی سے چین سے یورپ تک ترسیل کی لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے بین الاقوامی تجارت متاثر ہوئی ہے ۔

اس صورتحال نے گاڑیوں اور مشینری کی تیاری میں استعمال ہونے والے آلات اور پرزوں کی فراہمی متاثر ہونے کی وجہ سے مچلن، سوزوکی موٹرز، والوو اور ٹیسلا جیسی کمپنیوں کویورپ میں اپنی پیداوار عارضی طور پر روک دینے پر مجبور کر دیا ہے۔ دوسری طرف حوثیوں متبادل راستے کیپ آف گڈ ہوپ میں بھی بڑے مال بردار بحری جہازوں او ر آئل ٹینکرز پر حملے شروع کر دیئے ہیں۔برطانوی آئل ٹینکر ’’مارلن لوانڈا‘‘ پر حملہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔بحیرہ احمر میں کشیدگی میں اضافے نے انشورنس کوریج کو بھی متاثر کیا ہے۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، بڑے بیمہ کنندگان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بحیرہ احمر کو عبور کرتے وقت امریکی اور برطانوی بحری جہازوں کو انشورنس کوریج سے نکال دیتے ہیں۔

مزید برآں، انڈر رائٹرز جہازوں کو ان ممالک سے دور رہنے کے لئےکہہ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں لاجسٹکس اور لاگت کے چیلنجز پیدا ہو رہے ہیں۔کلارکسن سیکیورٹیز نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ ایشیا میں تعطیلات سے پہلے سامان درآمد کرنے کے لیے کمپنیوں کی طر ف سے جلد بازی بحیرہ سپلائی چین کے موجودہ مسائل کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ اس پس منظر میں ایران اورامریکا کے ایک دوسرے کو دھمکی آمیز بیانات بحیرہ احمر کو میدانِ جنگ میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

بحیرہ احمر کے بحران سے متاثر ہونے والے تمام فریقوں نے کہا ہے کہ وہ علاقائی جنگ سے بچنا چاہتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ خطرات سے نمٹنے کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنا چاہتے ہیں۔ اس پس منظر میں رابطوں کی کمی اور سفارت کاری میں شامل ہونے کی خواہش غلط اندازوں اور غیر ارادی نتائج کے امکانات کے بارے میں خدشات کو جنم دے رہی ہے ۔