اسلام آباد۔3اگست (اے پی پی):بھارت کی حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے بھارت کے غیرقانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے تین سال بعد ریاست کی معیشت کو مسلسل لاک ڈائون، کرفیو، انٹرنیٹ کی بندشوں اور سخت پابندیوں کی وجہ سے شدید دبائو اور غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے۔
نریندر مودی کی زیرقیادت حکومت نے آرٹیکل 370 اور 35A کی منسوخی کے بعد متعدد غیرقانونی اقدامات کئے ہیں جن میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور کشمیر کی معیشت کو تباہ کیا جا رہا ہے تاکہ کشمیری عوام کو حق خودارادیت کے مطالبے سے دستبردار کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ مرکز کے زیر انتظام دو الگ الگ علاقوں میں تقسیم کرنے کے وقت بی جے پی نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اسے براہ راست نئی دہلی سے کنٹرول کرنے کے نتیجہ میں خطے کی بہتر ترقی ہوگی اور اس کی معیشت کو فروغ ملے گا تاہم اس غیر قانونی اقدام کے تین سال بعد کشمیر کی معیشت کو تباہ کردیا گیا ہے۔
سیاسی اور اقتصادی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران کشمیر کی صورتحال انتہائی خراب ہوئی ہے کیونکہ 5 اگست 2019 کے فیصلوں کے معیشت کو بدترین منفی اثرات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان اقدامات نے زیادہ تر صنعت کاروں اور تاجروں کو متاثر کرنے کے علاوہ ریاست میں بے روزگاری کی حالت کو مزید خراب کیا ہے اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔ 5 اگست 2019 کے فیصلے کے فوراً بعد بھارت نے ہزاروں تازہ دم فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر روانہ کیا اور پورے خطے کا سخت لاک ڈائون کیا گیا جس کے بعد کورونا وائرس کی احتیاطی تدابیر کے نام پر لاک ڈائون کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
لاک ڈائون، کرفیو یا پھر محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے نام پر یہ پابندیاں آج تک جاری ہیں۔ بھارتی ریاستی دہشت گردی کے ان تمام ہتھکنڈوں نے پورے خطے میں معاشی سرگرمیوں کو عملی طور پر روک دیا ہے اور اس کے نتیجے میں مقبوضہ علاقہ میں مکمل اقتصادی افراتفری پھیل رہی ہے۔
کشمیر میں پھلوں اور سیاحت کی صنعتیں کشمیر کی اقتصادی بنیادوں میں اہم ہیں، بھارتی حکومت نے پہلے سے منصوبہ بند اقدامات کے ساتھ کشمیریوں کو معاشی طور پر کچلنے اور انہیں ناجائز بھارتی تسلط قبول کرنے پر مجبور کرنے کے لیے دونوں شعبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران بھارتی قابض افواج نے کشمیریوں کو معاشی نقصان پہنچانے کے لیے بہت سے باغات کاٹ ڈالے، اس کے علاوہ باغات کی پیداوار کی برآمد کے دوران پہلے سے طے شدہ لاک ڈائون کے نتیجے میں تازہ پھل گل سڑ گئے جس سے کشمیریوں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔
منی کنٹرول، آن لائن بزنس اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سال بھی امرناتھ یاترا کو سہولت فراہم کرنے کے بہانے سری نگر جموں ہائی وے پر پابندیاں عائد کی گئیں جس سے منڈیوں تک پھلوں کو لے جانے میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ 5 اگست 2019 کے بعد لاک ڈائون نے مقبوضہ ریاست کی سیاحت کی صنعت کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔ سائنس ڈائریکٹ میں شائع ہونے والے تحقیقی مطالعے کے مطابق اس صورتحال کے باعث سیاحت کے شعبہ سے منسلک لوگوں کو اپنا ذریعہ معاش تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔
خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور لاک ڈائون نے سیاحت کی صنعت پر پچھلے دو تین سالوں سے نمایاں منفی اثر ڈالا جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ملازمتوں کا نقصان ہوا۔ اگست 2019 سے ریاست کا باقی دنیا سے منقطع ہونے کی وجہ سے دستکاری کی صنعت بھی مشکل دور سے گزر رہی ہے۔
دی اسٹیٹس مین کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برسوں میں ہونے والے مجموعی نقصانات کے نتیجے میں سرمایہ کاروں اور مقامی کاروباری اداروں کے مالیات پر غیر معمولی دبائو پڑا ہے۔دی اکنامک ٹائمز کے مطابق انٹرنیٹ کی مسلسل بندش، ٹیلی مواصلات میں پابندیوں اور کرفیو نے ملازمین کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کو متاثر کیا ہے۔
کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور 5 اگست 2019 کے دیگر اقدامات کے بعد معیشت کو تباہ کردیا گیا اور اس کے علاوہ معلومات تک رسائی، نقل و حرکت اور رابطے کا حق مکمل طور پر متاثر ہوچکے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری مداخلت کرے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امن و سلامتی کو فروغ دینے میں مدد کرے جس سے تمام خطہ بالخصوص کشمیر کی معاشی ترقی ہوسکتی ہے۔