تنازعہ کشمیر کے باعث جنوبی ایشیا کے ایک ارب 40 کروڑ عوام یرغمال بنے ہوئے ہیں، امریکہ تہیہ کر لے تو مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے، وزیراعظم عمران خان کا ایچ بی او کو انٹرویو

113

اسلام آباد۔21جون (اے پی پی):وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کشمیر کے تنازعہ کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے ایک ارب 40 کروڑ عوام یرغمال بنے ہوئے ہیں، امریکہ اگر عزم و ارادہ کر لے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، مغرب بھارتی فوج کے ہاتھوں ہزاروں کشمیریوں کی شہادت کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں مظالم کو نظرانداز کر رہا ہے،8 لاکھ بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر کو 90 لاکھ کشمیری عوام کے لئے جیل بنا رکھا ہے، اسلامو فوبیا کی بڑی وجہ عالم اسلام اور مغربی معاشروں کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے، پاکستان میں کورونا وباء کی صورتحال سے نمٹنے کے لئے سمارٹ لاک ڈائون بہترین فیصلہ تھا۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہارپیر کو یہاں امریکی ٹی وی چینل کے پروگرام ” ایگزی اوس آن ا یچ بی او” کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا جس کے میزبان جوناتھن سوان تھے ۔

وزیراعظم عمران خان سے انٹرویو کرنے والے نے جب استفسار کیا کہ امریکی صدر جوبائیڈن سے مستقبل میں ملاقات کے موقع پر بات چیت کے دوران ان کی ترجیح کیا ہو گی تو وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ تنازعہ کشمیر ان کے ایجنڈے پر سرفہرست ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ برصغیر کے ایک ارب40 کروڑ عوام کشمیر کے واحد تنازعہ کی وجہ سے یرغمال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پر اس سلسلہ میں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ دنیا کا ایک طاقتور ملک ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں جن میں کشمیری عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے استصواب رائے پر زور دیا گیا ہے، کے مطابق حل کرنا ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ مغرب کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ہزاروں کشمیریوں کی نسل کشی کو نظر انداز کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مغربی دنیا میں یہ بہت بڑا مسئلہ ہے کہ کشمیری عوام کو نظرانداز کیوں کیا جاتا ہے؟۔ وزیراعظم نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں 8 لاکھ بھارتی فوجیوں نے 90 لاکھ کشمیریوں کے لئے مقبوضہ کشمیرکو جیل بنا رکھاہے۔

وزیراعظم نے عشروں سے انسانی بحران کا سامنا کرنے والے کشمیری عوام کی حالت زار پر دنیا کی بے حسی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیاکے لئے یہ اہم مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ یہ منافقت ہے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی ایٹمی صلاحیت کے حوالہ سے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار، ایک ایسا ملک جو اس سے رقبے میں سات گنا بڑا ہے کے تناظر میں ،اس کے اپنے دفاع کیلئے ہیں۔ وزیراعظم نے اس یقین کا اظہار کیا کہ کشمیر کا تنازعہ حل ہونے سے دونوں ممالک امن کی جانب گامزن ہوں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ کشمیر کا تنازعہ حل ہونے سے پاکستان اور بھارت نیوکلیئر ڈیٹرنس کے بغیر مہذب ہمسائیوں کی طرح رہیں گے۔ وزیراعظم نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے 5 اگست 2019ء کے غیرقانونی اور یکطرفہ اقدامات واپس لئے جانے تک بھارت کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ انہوں نے اقتدار میں آنے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر کے لئے کئے گئے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی کی جماعت آر ایس ایس کی پالیسیوں سے متاثر ہے اور نازیز اور ہٹلر کو اپنا آئیڈیل سمجھتی ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالہ سے وزیراعظم نے زور دیا کہ اس سے قبل مسئلہ کا سیاسی حل ضروری ہے کیونکہ تنازعہ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ کا سیاسی حل، جس کے ذریعے طالبان اور دوسرے فریقین پر مشتمل اتحادی حکومت قائم ہو، کے بغیر امریکی افواج کے انخلا سے خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان طالبان کو اقوام عالم میں خوش آمدید کہے گاتو وزیراعظم نے کہا کہ افغانستان کے عوام کی جو بھی نمائندگی کرے گا ہم اس کے ساتھ کام کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا کہ پاکستان افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سرحد پار انسداد دہشت گردی کارروائیوں کیلئے امریکہ کو اپنی سر زمین استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔

جب ان سے سوال کیاگیا کہ کیا آپ امریکی حکومت کو القاعدہ ، آئی ایس آئی ایس یا طالبان کیخلاف سرحد پار انسداد دہشت گردی کارروائیوں کیلئے پاکستان میں سی آئی اے کی موجودگی کی اجازت دیں گے ؟ تو وزیر اعظم عمران خان نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا کہ ہر گز نہیں ہم پاکستانی سرزمین سے افغانستان میں کسی بھی قسم کی کارروائی یا اڈے بنانے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم امن کیلئے شراکت دار ہیں تنازعہ میں نہیں، پاکستان اپنی سرزمین سے مزید فوجی کارروائیوں کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان نے افغانستان کے بعد سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔

وزیراعظم سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان امریکہ کو حملوں کیلئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا ،وزیراعظم نے کہا کہ امریکہ کی اس سوچ کا 20 سال میں کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا تو اب بھی اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ عالمی وبا کووڈ۔19 سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں سمارٹ لاک ڈائون کے ساتھ ساتھ اعداد و شمار کے جامع تجزیے سے حکومت کو وباپر قابو پانے میں مدد ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمارٹ لاک ڈائون صورتحال سے نمٹنے کے لئے ایک بہترین فیصلہ تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ اسپین اور اٹلی میں کووڈ۔19 کی وجہ سے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے اور کووڈ۔19 نے پورے یورپ میں تباہی مچا دی۔ وزیرا عظم نے کہا کہ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے مکمل لاک ڈائون کے لئے بہت شور شرابا کیا لیکن حکومت نے غریبوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے سمارٹ لاک ڈائون کا انتخاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا مانیٹرنگ اور صوبوں ، فوج ، ڈاکٹروں اور ماہرین صحت کی آرا کے ساتھ نیشنل کمانڈ آینڈ آپریشن سنٹر کے موثر کام سے حکومت کو صورتحال سے نمٹنے میں مدد ملی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بھارت میں نریندرا مودی کی حکومت نے مکمل کرفیو لگا دیا، جس سے کورونا کی صورتحال مزید بگڑ گئی اور غریب عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا، انہوں نے غریب لوگوں کا سوچا ہی نہیں، اس لئے وہاں پر حالات بے قابو ہو گئے، جہاں ایک چھت کے نیچے 6 سے 7 لوگ رہتے ہوں وہاں آپ لاک ڈائون کیسے لگا سکتے ہیں اور پھر ان کو خوراک بھی نہ پہنچائی جائے تو پھر ایسی ہی صورتحال پیدا ہوتی جیسی بھارت میں پیدا ہوئی، ہمیں ہماری متوازن اپروچ نے بچایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ویکسینیشن کا عمل جاری ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس کو بھی کامیابی سے مکمل کیا جائے۔

اسلامو فوبیا کے حوالے سے وزیر اعظم نے اسے اسلامی دنیا اور مغربی معاشروں کے درمیان رابطوں کا فقدان قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ نائن الیون کے بعد "اسلامی دہشت گردی” کی اصطلاح وضع کی گئی جس کے ذریعے مغرب میں لوگوں کو گمراہ کیا گیا اور مغربی دنیا میں یہ غلط تاثر پیدا ہو گیاکہ اسلام دہشت گردی کا باعث ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں چند مسلمانوں کے ملوث ہونے کے باعث دنیا بھر میں ایک ارب 30 کروڑ مسلمان نشانہ بن گئے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی ترجیحات ملک کو فلاحی ریاست بنانا اور طاقتور پر قانون کی حکمرانی قائم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک قانون کی حکمرانی کے بغیر غربت پر قابو نہیں پا سکتا۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دفتر کے تحت فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہر سال ترقی پذیر ملکوں سے ایک ہزار ارب ڈالرز کا سرمایہ لوٹ کر مغربی ملکوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ترقی پذیر ملکوں کی کرنسی گرنے کے باعث غربت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جن دو خاندانوں نے 30 سال تک حکومت کی وہ کروڑوں ڈالر پاکستان سے باہر منتقل کرچکے ہیں، جب کسی ملک سے اتنے بڑے پیمانے پر رقم منتقل ہوتی ہے تو پھر ملک میں کئی مسائل جنم لیتے ہیں اور حکومت کے پاس انسانی وسائل کی ترقی پر خرچ کرنے کے لئے پیسہ نہیں ہوتا، ملک اس لئے غریب ہوتا ہے کیونکہ دولت ملک سے باہر چلی جاتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کے حوالے سے تمام فریقین کو آگاہی اور شعور بیدار کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا اور موبائل فونز پر دستیاب مواد سے بچوں کے ذہن متاثر ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر معاشرے کی اپنی اقدار ہوتی ہیں اور جب کسی بھی معاشرے میں نئی چیزیں آتی ہیں تو اس کے اثرات ہوتے ہیں۔

وزیراعظم نے گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے عالمی سطح پر اجتماعی کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس سلسلے میں اپنے حصے سے بڑھ کر کوششیں کر رہا ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ہم نے زیادہ سے زیادہ وسائل مختص کئے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے دریائوں میں 80 فیصد پانی پہاڑوں میں موجود گلیشیئرز سے آتا ہے، اگر درجہ حرارت میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا اور گلیشیئرز اسی طرح پگھلتے رہے تو پھر کروڑوں لوگوں کو بھوک کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ بھارت بھی اس سے متاثر ہوگا۔

وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے تاجکستان کے صدر سے بھی اس سلسلے میں بات کی، انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی طرف بھی ایک ہزار کے قریب برفانی تودے پگھل چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ گلوبل وارمنگ میں پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر اور ایک فیصد سے بھی کم ہے، خیبرپختونخواہ میں ہم نے ایک ارب درخت لگائے، پھر 2018ء سے اب تک مزید ایک ارب درخت لگا چکے ہیں اور اب ہم مزید 9 ارب درخت لگانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔