حمزہ شہباز 179ووٹ لیکر دوبارہ وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے

186

لاہور۔22جولائی (اے پی پی):سپریم کورٹ کے حکم پر منعقد ہونے والے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے امیدوار حمزہ شہباز 179ووٹ لے کر دوبارہ وزیر اعلی ٰپنجاب منتخب ہو گئے جبکہ ان کے مد مقابل پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق)کے امیدوار چوہدری پرویز الہٰی نے 176ووٹ حاصل کئے ، ڈپٹی سپیکر نے مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے اراکین اسمبلی کو دی گئی ہدایات کے برعکس ووٹ دینے پر مسلم لیگ(ق) کے 10ووٹ مسترد کر دئیے اور حمزہ شہباز کی کامیابی کا اعلان کیا ، پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ(ق) نے ڈپٹی سپیکر کی رولنے کے خلاف عدلیہ سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا ، وزیر اعلیٰ پنجاب بر قرار رہنے پر مسلم لیگ(ن) کی جانب سے ایوان میں شیر شیر کے نعرے لگائے گئے اور تمام اراکین اسمبلی نے حمزہ شہباز کومبارکباد دی ۔

تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت 4بجے کی بجائے2گھنٹے 55منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردا ر دوست محمد مزاری کی صدارت میں شروع ہوا ۔ تلاوت کلام پاک کے بعد راولپنڈی کے حلقہ پی پی 7سے نو منتخب رکن اسمبلی راجہ صغیر احمد نے رکنیت کا حلف اٹھایا ۔اجلاس کے آغاز پر مسلم لیگ (ن) خلیل طاہر سندھو نے ڈپٹی سپیکر سے نقطہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت طلب کی جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ آج کے روز نقطہ اعتراض نہیں بنتا تاہم انہوں نے اصرار کر کے بات کرنے کے لئے وقت حاصل کرلیا ۔

خلیل طاہر سندھو نے کہا کہ پی پی 167سے تحریک انصاف کے رکن شبیر احمد کے خلاف الیکشن کمیشن میں کیس چل رہا ہے اور ان کی رکنیت فیصلے سے مشروط ہے اس لئے وہ ووٹ کاسٹ نہیں کر سکتے جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہاکہ وہ تو حلف اٹھا چکے ہیں ۔خلیل طاہر سندھو کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست سے استعفی نہ دینے پر مخدوم زین محمود قریشی پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ۔

تحریک انصاف کے راجہ بشارت نے اس پر اپنا موقف دیا جس کے بعد چیئر نے اسے رد کر تے ہوئے زین قریشی کے حق میں رولنگ دیدی۔ ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری کی ہدایت پر سیکرٹری پنجاب اسمبلی نے وزیر ا کے انتخاب کے طریق کار کے حوالے سے اراکین اسمبلی کو آگاہ کیا ۔ طریق کار کے مطابق سب سے پہلے ایوان میں پانچ منٹ کے لئے گھنٹیاں بجائی گئیں تاکہ اگر کوئی بھی رکن اسمبلی لابی میںموجود ہوتو وہ ایوان میں آ جائے ۔ پانچ منٹ کے بعد ایوان کے تمام دروازے لاک کر دئیے گئے اور کسی رکن اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے عملے کے باہر جانے پر پابندی تھی ۔

اس کے بعد تحریک انصاف اور(ق) لیگ کے اراکین اپنے امیدوار کو ووٹ دینے کیلئے ڈپٹی سپیکر کی بائیں جانب جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے اراکین ڈپٹی سپیکر کی دائیں جانب سے اپنے نام کے اندراج کرانے کے بعد لابی میں چلے گئے ۔اس کے بعد ووٹوں کی گنتی اور اراکین کو ایوان میں واپس بلایا گیا اوردو منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائی گئیں۔ڈپٹی سپیکر کی جانب سے نتائج کا اعلان کیا گیا جس کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے امیدوار حمزہ شہباز نے 179جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار چوہدری پرویز الہی نے 176ووٹ حاصل کئے ۔

راجہ بشارت کی جانب سے احتجاج پر ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزار ی نے چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے لکھے گئے خط کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا جس کے مطابق مسلم لیگ (ق) کے تمام اراکین کو ہدایت کی گئی کہ وہ اپنا ووٹ حمزہ شہباز کو کاسٹ کریں گے ۔ راجہ بشارت نے کہا کہ 63اے کے مطابق پارلیمانی لیڈر اراکین کو ہدایات دینے کا اختیار رکھتا ہے ۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ یہ پارٹی چیف کا اختیار ہے ، آپ عدالت کا حکم پڑھیں ۔

ڈپٹی سپیکر سردار دوست محمد مزاری نے کہا کہ میں نے خود چوہدری شجاعت حسین کو ٹیلیفون کال کر کے پوچھا انہوں نے تین مرتبہ اپنے لیٹر کے بارے میں کہا ۔ ڈپٹی سپیکر نے سپریم کورٹ کے احکامات63اے کے فیصلے کی روشنی میں رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ میں سپریم کورٹ کے احکامات مطابق کارروائی چلا رہا ہوں ، راجہ بشارت صاحب آپ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے ، آپ نے کچھ پڑھا ہی نہیں ہے ۔راجہ بشارت نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین اس کے مجازہے ہی نہیں ۔

ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ آپ اس کو چیلنج کریں جس پر انہوں نے کہا کہ ہم اسے چیلنج کریں گے ۔ اس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے حمزہ شہباز کے وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کی رولنگ دی اس کے ساتھ ہی ڈپٹی سپیکر نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق اجلاس کی کارروائی مکمل ہونے پر اجلاس غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کر دیا ۔ اس کے بعد حکومتی اراکین اپنی نشستوں سے اٹھ کر حمزہ شہباز کی طرف بڑھے اور انہیں کندھوں پر اٹھا لیا اور شیر شیر کے نعرے لگاتے ہوئے انہیں مبارکباد دی۔

قبل ازیں مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی ، راہ حق پارٹی اور آزاد اراکین نجی ہوٹل سے بسوں کے ذریعے پنجاب اسمبلی پہنچے جبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اراکین بھی مال روڈ پر واقع نجی ہوٹل سے بسوں کے ذریعے پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پہنچے ۔ اراکین اسمبلی کی جانب سے بسوں سے اترتے ہوئے وکٹری کا نشان بنایا گیا اور اپنی اپنی قیاد ت کے حق میں نعرے لگائے گئے ۔

تما م جماعتوں کے کارکنان بھی اپنے اپنے امیدواروں کی حمایت کے لئے پنجاب اسمبلی کے باہر موجود رہے اور نتیجہ آتے ہی نعرے بازی شروع کردی اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں ۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس تاخیر کا شکار ہونے سے اراکین اسمبلی تذبذب کا شکار نظر آئے ،کچھ اراکین تاخیر سے بے خبر اپنی نشستوں پر سستا تے رہے ۔ ایوان میں چوہدری شجاعت حسین کے خط کی باز گشت کے بعد اپوزیشن اتحاد کے اراکین حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے بیتاب نظر آئے اور ایک دوسرے سے خط کے بارے میں پوچھتے رہے ۔