فیصل آباد۔ 29 نومبر (اے پی پی):ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد میں منعقدہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں دالوں کے پیداواری منصوبہ برائے سال2024 کی منظوری دیدی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ پاکستان اپنی دالوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہر سال110 ارب روپے سے زائد مالیت کی دالیں آسڑیلیا اور افریقہ سے درآمد کرتا ہے جو ملکی معیشت کیلئے ایک بوجھ ہے لہٰذاموجودہ مشکل معاشی حالات میں دالوں کی درآمد پر خرچ ہونیوالے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ناگزیر ہے جس کیلئے دالوں کی نئی اقسام متعارف کروانے کیساتھ ان کے زیرکاشت رقبہ کو بڑھانا وقت کی اہم کی ضرورت ہے۔
اس ضمن میں ڈائریکٹرزراعت فارم اینڈ ٹریننگ پنجاب چوہدری مشتاق علی کی زیر صدارت ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد میں منعقدہ اجلاس میں ڈاکٹر خالد حسین چیف سائنٹسٹ، سجاد سعید سینئرسائنٹسٹ شعبہ دالیں،ڈاکٹر محمد اسلم چیف سائنٹسٹ ایرڈ زون ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھکر، ڈاکٹر ارشد بشیر ڈائریکٹر ایس ایس آر آئی فیصل آباد، جاوید احمد ڈپٹی ڈائریکٹر اڈپٹیو ریسرچ پنجاب لاہور،جاویدانور شاہ،سینئر سائنٹسٹ شعبہ امراض نباتات فیصل آباد،ڈاکٹر عامر رسول ڈپٹی دائریکٹر پیسٹ وارننگ اینڈ کوالٹی کنٹرول، ضیا القیوم ماہر شماریات،ڈاکٹر عمار مطلوب اسسٹنٹ پروفیسر زرعی یونیورسٹی ملتان، ڈاکٹر حافظ نوید رمضان شعبہ اگرانومی، ماریہ اسلم،ماریہ غفار نمائندہ نایاب فیصل آباد، سہیل ارشاد نمائندہ پنجاب سیڈ کارپوریشن،
ڈاکٹر ندیم اقبال پرنسپل سائنٹسٹ شعبہ سائل فرٹیلٹی اورڈاکٹر قوی ارشاد ڈپٹی ڈائریکٹر ریسرچ انفارمیشن سمیت مختلف شعبوں کے زرعی سائنسدانوں نے شرکت کی۔ ڈاکٹر محمد اسلم ماہر دالیں نے اجلاس میں بتایا کہ ایرڈ زون ریسرچ انسٹیٹیوٹ بھکر نے مونگ کی فی ایکڑ زیادہ پیداواری صلاحیت کی حامل متعددنئی اقسام متعارف کروائی ہیں جبکہ حکومت پاکستان نے دالوں کی پیداوار میں اضافہ کیلئے چکوال اورا ٹک کے علاوہ بلوچستان اور سندھ کے مختلف علاقوں میں دالوں کی کاشت کے فروغ کے جامع منصوبہ کیلئے بھاری رقم مختص کی ہے۔انہوں نے کہا کہمونگ اور ماش دالیں ہماری روزمرہ خوراک کا ایک اہم حصہ ہیں اور غذائی اعتبار سے ان دالوں کی اہمیت مسلمہ ہے جبکہ دالوں میں 20 فیصد سے زائد پروٹین ہوتی ہے
جس کی وجہ سے انکو گوشت کاسستا نعم البدل کہا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ پھلی دار اجناس ہونے کی وجہ سے دالوں کے پودوں کی جڑوں میں مفید بیکٹیریا ہوتے ہیں جن پرنوڈیولز بنتے ہیں جو فضاسے نائٹروجن کو فکس کر کے پودوں کو مہیا کرتے ہیں نیز جڑیں گلنے سڑنے کے بعد زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتی ہیں لہٰذا دالوں کی کاشت سے زمین کی زرخیزی کو بحال رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ڈاکٹر خالد حسین نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پلسز ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد نے ماش کی فی ایکڑ زیادپیداوار کی حامل نئی اقسام پنجاب سیڈ کارپوریشن کے علاوہ ترقی پسند کاشتکاروں کو فراہم کی ہیں جنہیں زیر کاشت لا کر ماش کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ دالیں کماد کی بہاریہ کاشت اور مونڈھی فصل میں مخلوط طور پر بھی کاشت کی جا سکتی ہیں اوراس ضمن میں کماد،چاول اور کپاس کے آبپاش علاقہ جات میں وٹوں پر کاشت سے کاشتکار بھرپور منافع کما سکتے ہیں۔ ڈاکٹر عامر رسول ڈپٹی ڈائریکٹر پیسٹ وارننگ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دالیں بہار اور خریف دونوں موسموں میں کاشت کی جا سکتی ہیں جبکہ دالوں کی فصل سے جڑی بوٹیوں کی بروقت تلفی سے پیداوارمیں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بہاریہ فصل پر خریف کی نسبت کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ کم ہوتا ہے۔اجلاس میں دالوں کے پیداواری منصوبہ برائے سال2024کی تشکیل کیلئے مختلف موضوعات زیر بحث لائے گئے جن میں دالوں کی کاشت سے لیکر برداشت تک کے عوامل اور اسکی ترقی دادہ اقسام کی کاشت کیلئے موزوں آب و ہوا، شرح بیج، وقت کاشت، زمین کی تیاری، طریقہ کاشت،کھادوں اور پانی کا استعمال، چھدرائی، گوڈی، جڑی بوٹیوں کی تلفی، کیڑوں اور بیماریوں سے تحفظ کے حوالے سے زرعی ماہرین نے زرعی تحقیقاتی اداروں میں دالوں پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج اور سفارشات سے آگاہ کیا۔بعدازاں پیداواری منصوبہ دالیں برائے سال 2024 کے مسودہ کوچند ضروری ترامیم کے بعد منظور کرلیا گیا۔\932