بیجنگ۔24نومبر (اے پی پی):چین کی سائبر سکیورٹی کمپنی نے ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والی بھارتی ہیکنگ تنظیم کے چین اور پاکستان کے خلاف سائبر حملوں میں ملوث ہونے کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت علاقائی سائبر سکیورٹی کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے ۔
سائبر سپیس انٹرنیشنل گورننس ریسرچ سینٹر نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس نے بھارت میں ایک ریاستی سطح کی ہیکنگ تنظیم کا پتا چلایا ہے جو چین اور پاکستان کے خلاف سائبر حملے کر رہی ہےجن کا واضح مقصد حساس فوجی اداروں کو نشانہ بنانا ہے اور اس سے واضح ہے کہ بھارت علاقائی سائبر سکیورٹی کے استحکام کو تباہ کرنے کے عزائم رکھتا ہے۔
سائبر سپیس انٹرنیشنل گورننس ریسرچ سینٹر کے سیکرٹری جنرل اور شنگھائی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینئر ریسرچ فیلو لیو چوانینگ نے چینی فوج کی ویب سائٹ چائنا ملٹری آن لائن میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں کہا کہ کمپنی نے طویل عرصے سے آن لائن ٹریکنگ کی بنیاد پر معلوم کیا ہے یہ ہیکنگ تنظیم جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ فعال اور مہارت و تجربہ رکھنے والی ہیکنگ تنظیموں میں سے ایک بن گئی ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بھارت کی ہیکنگ تنظیموں کے دیگر ممالک پر سائبر حملے کرنے کا انکشاف ہوا ہے اور رپورٹ میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ تنظیم کو بھارت کی ریاستی افواج کی حمایت حاصل ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سائبر سپیس قانون سے بالاتر شعبہ نہیں ہے۔
چین سمیت تمام ممالک سائبر سکیورٹی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ بھارت کی ہیکنگ تنظیموں کی طرف سے پڑوسی ممالک کے خلاف شروع کیے گئے بے تحاشہ سائبر حملوں نے علاقائی سلامتی اور استحکام پر سنگین منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور مستقبل میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) اور BRICS جیسی بین الاقوامی تنظیموں کے سائبر سکیورٹی تعاون میں بڑی رکاوٹیں پیدا کریں گی ۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف آن لائن حملے غیرقانونی ہیں اور بھارت اقوام متحدہ کے گروپ آف گورنمنٹل ایکسپرٹس (این جی جی ای) کے سائبر کوڈز اور بین الاقوامی قانون کی متعلقہ دفعات کی خلاف ورزی کا خطرہ رکھتا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ بھارت سے فوری طور پر سائبر حملے بند کرنے کا مطالبہ کرے اور اس پر دبائو بڑھائے کہ وہ دوبارہ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔انہوں نے کہا کہ بھارت سائبر جمہوریت کا ملک ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور سائبر سکیورٹی میں امریکا کے اشاروں پر عمل کر رہا ہے۔
ایک طرف وہ بغیر کسی ثبوت کےچین کی آن لائن ساکھ کو خراب کر رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بین الاقوامی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے معاہدے میں ملوث ہے۔بھارت یہ بھول گیا ہے کہ بھارت سائبر سپیس کے میدان میں بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے اور اسے سائبر سیکورٹی کے بے پناہ خطرات کا بھی سامنا ہے۔ پڑوسی ممالک پر اس کے سائبر حملوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا سکتی جو ظاہر ہے کہ اس کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے جس میں امریکا کے سابق کمپیوٹڑ انٹیلی جنس کنسلٹنٹ ایڈورڈ سنوڈن کے مطابق بھارت امریکی سائبر حملوں کا نشانہ بھی ہے لیکن بھارت نے اس سے سبق سیکھنے کی بجائے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور حملہ آور کا ساتھ دیا جس سے بھارت کے غیرذمہ دار سائبر ریاست ہونے کا تاثرمزید مستحکم ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا، بھارت اور جاپان چین کے گرد سائبر سکیورٹی کا جال بن رہے ہیں، چین کے خلاف سائبر حملے اور ان بارے معلومات کا پتہ لگانے کی سرگرمیاں کر رہے ہیں اور ضروری محکموں سے حساس معلومات چرا رہے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو چین کو درپیش سائبر سکیورٹی کے بڑھتے ہوئے خطرات پیدا کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سائبر سپیس کی بات کی جائے تو چین ہمیشہ ایک ذمہ دار ملک رہا ہے اور اس نے کسی بھی قسم کے سائبر حملوں کی مخالفت کی ہے یہی وجہ ہے کہ چین مساوی مشاورت کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے ساتھ سائبر سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے۔
سائبر سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظرہمیں اپنی دفاعی صلاحیت کو تیز کرنے، سائبر حملے کرنے والے ممالک کا پتہ لگانے اور سائبر حملے کرنے والوں کو بے نقاب کرنے کے لیے پہل کرنے کی ضرورت ہے جو ہماری قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں جبکہ ہمیں ان ممالک اور ہیکنگ تنظیموں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور ان حملہ آوروں کے خلاف مزید براہ راست اور موثر جوابی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے انتباہ اور اعتراض کی مخالفت میں طویل عرصے سے ہماری قومی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے۔