سورج کی روشنی اور ہوا کے وافر وسائل کی بدولت پاکستان میں قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کی نمایاں صلاحیت موجود ہے ، وزیر توانائی محمد علی

127
Energy Minister Muhammad Ali
Energy Minister Muhammad Ali

اسلام آباد۔23نومبر (اے پی پی):نگران وفاقی وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ سورج کی روشنی اور ہوا کے وافر وسائل کی بدولت پاکستان میں قابل تجدید توانائی پیدا کرنے کی نمایاں صلاحیت موجود ہے، متبادل توانائی سے بجلی کی قیمت میں کمی آسکتی ہے جس سے عوام کو ریلیف ملے گا ۔ ہ توانائی کی سپلائی کو بڑھانے کیلئے اقدامات کرنا ہونگے اور اس سلسلے میں وزار ت توانائی (پاور ڈویژن ) شمسی توانائی کے منصوبوں پر کام کر رہی ہے ، پاکستان میں قابل تجدید توانائی کا مستقبل بہت اہم ہے کیونکہ ملک توانائی کے روایتی ذرائع کے ماحولیاتی اثرات کو کم کرتے ہوئے توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے۔

جمعرات کو انفارمیشن سروسز اکیڈمی اور الائنس فار گڈ گورننس فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’’قابل تجدید توانائی آگے بڑھنے کا راستہ ‘‘کے عنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کا انرجی مکس میں قابل تجدید توانائی کا حصہ بڑھانے کے عزم کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی حمایت اور سرمایہ کاری اور پائیدار توانائی کے مستقبل کی راہ ہموار کر رہی ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ قابل تجدید توانائی پاکستان میں توانائی کے ذر ائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہے، دنیا میں شمسی توانائی کی قیمت دس سال کی کم سطح پر آچکی ہے ، زرمبادلہ کی قلت کے باعث ہم توانائی کے وسائل کو زیادہ درآمد نہیں کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ متبادل توانائی ترقیاتی بورڈ (اے ای ڈی بی) جیسے اقدامات اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لئے معاون پالیسیوں اور مراعات کے نفاذ سے منتقلی میں تیزی آ رہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قابل تجدید توانائی نہ صرف توانائی کے تحفظ کو بڑھاتی ہے بلکہ کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں بھی کردار ادا کرتی ہے، جو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی عالمی کوششوں کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کا مستقبل صاف ستھرے، زیادہ پائیدار اور ریزیلینٹ توانائی کے منظرنامے کی جانب ایک اہم پیش رفت کی نمائندگی کرتا ہے۔نگران وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت پاکستان نے حال ہی میں نیشنل الیکٹریسٹی پلان 2023 کی منظوری دی ہے جس میں پاور سیکٹر کے لیے قومی بجلی پالیسی کے اہداف کے حصول کے لیے رہنما اصول، عملدرآمد کا طریقہ کار اور ٹولز فراہم کیے گئے ہیں۔

محمد علی نے ڈی کاربنائزیشن اور بجلی کی فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ مستقبل کے لئے پاکستان کی توانائی کی حکمت عملی کے اہم اجزاء ہیں۔وزیر توانائی نے پائیدار توانائی کو وسعت دینے کے ممکنہ منصوبے پر بھی تبادلہ خیال کیا ، جن میں خاص طور پر ہوا اور شمسی توانائی پر توجہ مرکوز کرنے پر کی ضرورت ہے ، توانائی کا شعبہ موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس کے مطابق حکومت پاکستان میں توانائی کی منتقلی کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ منتقلی کی حقیقی کامیابی پائیدار توانائی کے شعبے میں حقیقی اثر ڈالنا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا مقصد آہستہ آہستہ ٹیرف کو کم کرنا اور ملکی وسائل کے استعمال کی طرف بڑھنا ہے۔انہوں نے توانائی کے شعبے کے لئے تین اہم ترجیحات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ پہلی ترجیح ڈیٹا کی دستیابی ، ادائیگیوں کی راہ میں رکاوٹ دور کرنا اور پالیسیوں پر نظرثانی ، دوسری ترجیح قدرتی گیس کی فراہمی میں اضافہ اور تیسری ترجیح بجلی کے شعبے بشمول ٹرانسمیشن پر توجہ مرکوز کرنا، قابل تجدید توانائی کو فروغ دینا، اور گردشی قرضوں کو حل کرنا ہے تاکہ بجلی کی مستحکم فراہمی اور ادائیگی کے حل کو یقینی بنایا جا سکے۔

نگران وزیر توانائی محمد علی نے کہا کہ پاکستان کو توانائی کی کمی کا سامنا ہے جس کو دور کرنے کے لئے حکومت اقدامات لے رہی ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں لوڈ شیڈنگ کے تصور کو ختم کر دیا گیا جبکہ ہمارے ملک میں توانائی کی کمی کے باعث آج بھی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے ۔ نگران وزیر نے کہا کہ ملک میں بجلی کی ضرورت سے زیادہ کیپسٹی موجود ہے ہم بجلی تو زیادہ بنا رہے ہیں لیکن ٹرانسمیشن کے مسائل کی وجہ سے اتنی بجلی مہیا نہیں کی جا رہی جس وجہ سے کیپیسٹی پیمنٹ کرنا پڑتی ہے۔ ملک میں بجلی اور گیس کے نرخ زیادہ ہیں کیپسٹی پیمنٹ ایک الگ مسئلہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں انرجی ایفیشنسی بہت بڑا مسئلہ ہے ، ہمیں توانائی کے استعمال کی اہمیت پر کام کرنا ہوگا ، گھریلو سیکٹر کی گیس کو پاور پلانٹس کو دیا جائے اس سے سستی بجلی پیدا ہوگی اور استعمال بڑھے گا ۔

وزیر توانائی نے کہا کہ درآمدی پیٹرول ڈیزل کا اکثریتی حصہ ٹرانسپورٹ میں استعمال ہورہا ہے اگر ہم پاکستان میں الیکٹرک وہیکل کا استعمال زیادہ کر دیں تو ستر فیصد درآمد بچائی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت 600 میگا واٹ شمسی توانائی کی بڈنگ کر رہی ہے جس میں 1000 میگاواٹ مزید ایڈ ہو گا ۔ سیمینار کے شرکاء نے پاکستان کے لئے قابل تجدید توانائی کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی اور کہا کہ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام اور بزنس کمیونیٹی کو بھی اس کا حصہ بننا چاہیے تاکہ ہم توانائی کے سستے ذرائع حاصل کر سکیں اور ملکی معیشت کو بہتر کر سکیں۔ منیجنگ ڈائریکٹر پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ شاہ جہاں مرزا نے کہا کہ صاف توانائی پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک منظرنامہ سبز منظر نامہ ہوگا جہاں ہوا اور شمسی توانائی کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور دوسرا منظر نامہ معاشی پہلو ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان نے ڈیکاربرائزیشن پر اتنی توجہ نہیں دی تھی لیکن اب اس پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کی ترقی، توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور جیواشم ایندھن پر انحصار کم کرنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مشرق وسطیٰ میں شراکت داروں کی طرف بھی دیکھ رہا ہے تاکہ اسے تخفیف کاری کے اہداف کے حصول میں مدد مل سکے۔

شاہجہاں مرزا نے کہا کہ متبادل توانائی سستی ترین توانائی ہے،متبادل توانائی کے لیے قومی ایکشن پلان تشکیل دیا جا چکا ہے اور گزشتہ سال جنریشن پلان کی منظوری دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ گرین انرجی کا حصول پانچ ذرائع سے کیا جا رہا ہے، 30 فیصد انرجی متبادل ذرائع سے حاصل کی جا رہی ہے جس کو آئندہ 15 سال میں دوگنا کرنا ہے۔شاہجہاں مرزا نے کہا کہ سولر کے ذریعے بجلی کا حصول ملک بھر میں مقبول ہو رہا ہے اور متبادل توانائی سے 10 سے 12 روپے فی یونٹ قیمت کم کی جا سکتی ہے۔

سیمینار میں ڈائریکٹر جنرل انفارمیشن سروسز اکیڈمی سعید احمد شیخ ، توانائی کے ماہر اسد محمود، عرفان مرزا، اشرف رانا، توانائی کے ماہر ڈاکٹر عرفان یوسف، ڈاکٹر نور فاطمہ ،سول سوسائٹی، ماہرین تعلیم، الیکٹرانک، پرنٹ میڈیا اور یونیورسٹی کے طلباء کے نمائندوں نے شرکت کی۔