سپریم کورٹ ہماری استدعا کا نوٹس لے اور فل کورٹ سے تمام مسائل کو حل کرے،خواجہ سعد رفیق

176

اسلام آباد۔4اپریل (اے پی پی):وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل سے نواز شریف کی پانامہ کیس میں نااہلی تک اس ملک کی عدالتی تاریخ ناانصافیوں اور ناہمواریوں سے بھری پڑی ہے، سپریم کورٹ سے استدعا ہے کہ وہ انتشار اور تصادم سے بچنے کیلئے پنجاب اسمبلی 25 کے اراکین کی نااہلی سمیت دو صوبوں میں عام انتخابات کے معاملہ کی سماعت کیلئے فل کورٹ تشکیل دے۔ منگل کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کی عدالتی تاریخ ناانصافیوں اور ناہمواریوں سے بھری پڑی ہے، اس ملک میں بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا، یوسف رضا گیلانی کو غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر نااہل قرار دیا گیا اور یہیں پانامہ بنچ کے نام پر ایک ڈرامہ دیکھا اور بلیک لاء ڈکشنری کے نام پر سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ بحالی کی تحریک میں عدلیہ کے رومانس میں ہم بہت آگے نکل گئے حالانکہ اس وقت پیپلز پارٹی کے لوگ ہمیں کہتے رہے کہ تھوڑا انتظار کریں، نواز شریف جب ماڈل ٹائون سے لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے نکل رہے تھے، ہمارا کوئی ذاتی مفاد نہیں تھا، ہم اتحادی تھے اور اقتدار سے الگ ہو گئے، ہم عدلیہ بحالی کے پرچم کو لے کر نکل آئے، نواز شریف کو اس وقت بیرون ملک سے دو کالیں کرکے کہا گیا کہ آپ کی جان کو خطرہ ہے آپ باہر نہ نکلیں لیکن وہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانیں خطرے میں ڈال کر آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کے قیام کیلئے باہر نکلے،

عدلیہ میں اس وقت ہمارا کوئی رشتہ دار نہیں تھا نہ ہم اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو جانتے تھے لیکن ہم سمجھتے تھے کہ جنرل مشرف نے ظلم و زیادتی کی، آج کئی سال گزرنے کے بعد جب عدالت سے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ آتا ہے تو ہمیں شرمندگی ہوتی ہے کہ یہ تحریک چلانے کی کیا ضرورت تھی، عدلیہ بحال تو ہوئی لیکن اسے ہم آزاد اور غیر جانبدار نہیں کرا سکے، ہم اور ہمارے رفقاء نے عدلیہ بحالی کیلئے جیلیں کاٹیں تاہم اس کا نتیجہ پانامہ کیس کی صورت میں نکلا جہاں عمران خان کے سہولت کاروں کے کہنے پر یہ کھیل کھیلا گیا، جاوید ہاشمی نے بہت عرصہ پہلے ہمیں بتا دیا تھا کہ اس بار جج اور جرنیل مل کر آپ کو نکالیں گے اور اس کے بعد خوب زدوکوب کیا جائے گا اور یہ سب کچھ ہوا، وہ عمران خان کے ساتھ تھے اور اس سے الگ ہو گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ رکنا چاہئے تاہم یہ رک نہیں رہا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد ہوا ہے تو کونسا غیر قانونی یا غیر آئینی راستہ اختیار کیا گیا، ہم نے دھرنا یا اسلام آباد کا گھیرائو تو نہیں کیا، ہم اپوزیشن میں تھے تو ہمیں جیلوں میں ڈالا گیا، ہم جیلوں سے نکلتے تھے تو چیخیں نہیں مارتے تھے اور جیل جاتے وقت روتے نہیں تھے، عدالتوں میں ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی تھی، ہم جیلوں میں بند تھے ،جب ہمیں موقع ملا تو پاکستان کے آئین کے مطابق ہم نے عدم اعتماد لا ئے ، وہ کوئی جرم نہیں تھا، جب عمران خان لانگ مارچ کے ساتھ اسلام آباد آ رہا تھا تو عدلیہ نے کہا کہ اس کو آنے دو اور ساری پولیس ایک طرف کر دی، پھر یہاں آ کر املاک کو نقصان پہنچایا اور آگ لگائی لیکن اس بنچ نے عمران خان کو نہیں بلایا، نہ اس سے باز پرس کی۔

انہوں نے کہا کہ آج جو فیصلہ آیا ہے اس کی بنیاد پر وہ غیر منصفانہ اور غیر آئینی فیصلہ ہے جس میں پنجاب اسمبلی کے 25 ارکان کو نااہل کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ ان کے ووٹ بھی نہیں گنے جائیں گے، ہم پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے اور عمران کے گناہوں کا بوجھ اپنے سر پر اٹھا کر آگے چل پڑے، ہم آئی ایم ایف کے نامکمل پروگرام کو ٹھیک کرنے چل پڑے تھے اور ہمیں الیکشن میں دھکیل دیا گیا جس کا نتیجہ آپ کے سامنے ہے، ہم نے نظرثانی کی پٹیشن ڈالی لیکن اسے نہیں سنا گیا کیا پاکستان 22 کروڑلوگوں کا ملک ہے، لوگ بھوک سے مر رہے ہیں اور یہاں نئے نئے کھیل کھیلے جا رہے ہیں، یہاں ایک شخص کو دوبارہ اقتدار میں لانے کیلئے پھر سہولت کاری کی جا رہی ہے،انہوں نے کہا کہ کوئی پاکستانی ایسی افسوسناک صورتحال نہیں چاہتا، وزیراعظم کو یہ حکم دیا گیا کہ وزیراعظم کا مطلب وزیراعظم اور کابینہ ہے اس پر عملدرآمد کیا گیا تو کیا سپریم کورٹ کا مطلب چیف جسٹس اور تمام ججز نہیں ہے، ہمارے لئے کوئی اور حکم اور وہاں کوئی اور نظام ہے، یہ دوہرا معیار نہیں چل سکتا، ایک ہی معیار قائم کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے مقدمات میں کچھ مخصوص ججوں کو بنچ میں رکھا جاتا ہے باقیوں کو شامل نہیں کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ مقبول باقر کے پاس میرا مقدمہ لگا، میں انہیں جانتا تک نہیں تھا، میری خوش قسمتی تھی کہ ڈیڑھ سال بعد مجھے ضمانت مل گئی، اس کے بعد پابندی لگا دی گئی کہ مقبول باقر اور جسٹس مندوخیل کے پاس کوئی نیب کیس نہیں لگنا چاہئے کیونکہ وہ آزاد جج تھے، اس پر کسی کو کوئی شرمندگی نہیں ہوئی، اب جب پرائیویٹ محفلوں میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم معافی چاہتے ہیں لیکن یہ قوم کے ساتھ کھلواڑ ہے، یہ زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چار ججز کے فیصلے کو مانیں یا تین ججوں کے فیصلے کو مانیں، ہمیں دوراہے پر کھڑا کر دیا گیا، ہائوس ان آرڈر کرنا ان کی ذمہ داری تھی۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں انتخابات کرانے کا ہمیں کہا جا رہا ہے، کیا پاکستان چار وفاقی اکائیوں پر مشتمل نہیں، کیا پاکستان کا آئین چار وفاقی اکائیوں کو یکجا نہیں کرتا، کے پی کے میں انتخابات کی جلدی نہیں، صرف پنجاب میں جلدی ہے کہ یہ بہروپیا کسی طرح واپس اقتدار میں آ جائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزام لگتا رہا کہ پنجاب بڑا صوبہ ہے اور یہ پورے ملک پر حکمرانی کرتا ہے، اگر اس وقت پنجاب اور کے پی میں انتخابات کرائے جائیں اور چار مہینے بعد قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پنجاب اور کے پی کے حکمران قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز نہیں ہوں گے، آئین صرف یہ نہیں کہتا کہ 90 دن میں انتخابات کرائے جائیں، ہم نے اس آئین کو بخوبی پڑھا ہوا ہمیں یہ سبق نہ دیا جائے، ہم میں سے اکثر اراکین 40، 40 سال سے اس ایوان کا حصہ ہیں، آئین 90 روز کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ انتخابات غیر جانبدار اور شفاف ہونے چاہئیں تو دو صوبوں میں جن جماعتوں کی حکومتیں ہوں گی وہ قومی اسمبلی اور باقی صوبوں کے انتخابات پر کیسے اثر انداز نہیں ہوں گی ایسی صورت میں شفافیت اور غیر جانبداری کیسے ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح یہ انتخاب ڈسکہ بن جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مردم شماری ہو رہی ہے جو تکمیل کے قریب ہے جس میں لاکھوں نئے ووٹرز بنیں گے جبکہ نئی حلقہ بندیاں کی جائیں گی، ان ووٹروں کو جب حق رائے دہی نہیں ملے گا تو اس کی ذمہ داری اسی جوڈیشل آرڈر پر ہو گی، کسی ووٹر کو اس کے حق سے کیسے محروم کیا جا سکتا ہے۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ اس سب سے بڑھ کر اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اگر یہ انتخابات ہو جاتے ہیں تو اس کے نتائج تمام جماعتیں تسلیم کریں گی، ہم 1971ء کے سانحہ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے، ذاتی خواہشات کو قومی مفادات پر کیوں غالب آنے دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال کرنے کے حوالہ سے مجھ سے بھی رابطہ کیا گیا تھا، ہم فساد، خلفشار اور انتشار نہیں چاہتے، ہمارا مطالبہ جائز ہے، ہم فل کورٹ کا مطالبہ کرتے ہیں، جن دو ججوں نے خود کیس سننے سے معذرت کی ان کے علاوہ فل کورٹ بنایا جائے اور 25 اراکین پنجاب اسمبلی کی نااہلی سمیت یہ تمام معاملات اس کے سامنے رکھ دیں، جہاں سے بگاڑ کا آغاز ہوا وہیں سے شروعات ہوں، اس طرح کوئی سیاسی جماعت ختم نہیں ہو سکتی، یہ جماعتیں کئی بار گرائی گئیں لیکن یہ پھر اٹھ جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کا وقار اور اس کی اتھارٹی ہر قیمت پر بحال رہنی چاہئے، ہم سب یہ چاہتے ہیں کہ عدالتوں کا احترام بحال رہے مگر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ بڑی عدالت چھوٹی عدالت کی حدود میں مداخلت نہ کرے، جو فیصلہ سیشن کورٹ یا ہائی کورٹ نے کرنا ہے وہ براہ راست سپریم کورٹ میں نہیں جانا چاہئے، اس طرح اپیل کے حق سے ہی محروم کر دیا جاتا ہے، ہمارے ساتھ یہ بار بار ہو رہا ہے، سپریم کورٹ کے سینئر ترین ججز جب یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ہائی کورٹ کی حدود ہے انہیں فیصلہ کرنے دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ انتشار اور تصادم سے بچا جائے، ہم میں سے کوئی تصادم نہیں چاہتا، ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم انتخابات چاہتے ہیں لیکن یہ آزادانہ اور شفاف ہونے چاہئیں، 2018ء کے انتخابات کا ری پلے نہیں چاہتے، انتخابات میں اثر انداز ہونے اور دھاندلی سے ریاست میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو جاتا ہے، پاکستان میں پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا عمل بہت ہو چکا ہے، ہم نے پاکستان کو ایک رکھنا ہے، مضبوط رکھنا ہے، نفرتوں کو ہم ختم کرنا چاہتے ہیں اس لئے ہم ادب سے یہ گزارش کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ہماری استدعا کا نوٹس لے اور فل کورٹ ان تمام مسائل کو حل کرے۔