سیلاب جیسے بڑے چیلنج پر قابو پانے کیلئے حکومت، عالمی برادری  کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ، وزیر خارجہ  کی جولین ہارنیس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس

286

اسلام آباد۔30اگست (اے پی پی):وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ موجودہ سیلاب سے ملک میں تقریباً 33 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں، اس بڑے چیلنج پر قابو پانے کے لئے حکومت، عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے ڈونر اداروں کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔

منگل کو وزارت خارجہ میں اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر جولین ہارنیس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ملک بھر میں ریسکیو، ریلیف اور بحالی کی سرگرمیاں زوروں پر ہیں۔انہوں نے کہا کہ سیلابوں سے تباہی کے ابتدائی جائزے کے بعد دنیا، اقوام متحدہ اور شراکت دار ایجنسیوں کو چیلنج کی شدت سے نمٹنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس مون سون میں معمول سے تین گنا زیادہ بارشیں ہوئیں جس کے نتیجے میں سندھ کے 23 اضلاع اور بلوچستان، خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب کے 30 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے۔ انہوں نے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خیموں اور کھانے پینے کی اشیاء کی کمی کا ذکر کیا اور امدادی اشیاء کی فراہمی میں شفافیت کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ سیلابی پانی میں ڈوبے نشیبی علاقوں میں پانی کی نکاسی ایک بڑا چیلنج ہے تاہم محدود وسائل کے باوجود اس ضمن میں کام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کے تعاون سے پاکستان کو اس مشکل چیلنج پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے امدادی سرگرمیوں میں حکومت پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے پر اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے امدادی کاموں میں پاکستانی عوام اور سول سوسائٹی کی جانب سے مثالی فراخدلی کو بھی اجاگر کیا۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ سیلاب سے بچائو اور امدادی کارروائیوں کے حوالے سے ایک طویل راستہ باقی ہے۔ چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وفاقی، صوبائی اور بین الاقوامی اداروں کی سطح پر مشترکہ کوششوں سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے گا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے دورہ سندھ کے دوران 15 ارب روپے گرانٹ دینے کا اعلان کیا ہے، یہ رقم صوبائی حکومت کی کوششوں کی تکمیل میں معاون ثابت ہوگی۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ہم آہنگی کے معاملے کے بارے میں سوال پر بلاول بھٹو نے بے نظیر انکم سپورٹ سسٹم کے تحت ڈیٹا کی دستیابی کی افادیت کا حوالہ دیا جس سے امدادی سرگرمیوں کو انجام دینے میں مدد ملی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ یہ سیلاب کے معاملے پر سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ خیبرپختونخوا میں سیلاب سے متاثرہ افراد مدد کے منتظر رہے جبکہ صوبائی حکومت اپنے لیڈر عمران خان کے لئے ہیلی کاپٹر کی سہولت فراہم کرنے میں مصروف رہی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ سیلاب کے مسئلے نے قومی معیشت سے متعلق مسائل کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے جبکہ عوام کو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ کا سامنا ہے۔

بلاول بھٹو نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اتحادی حکومت بے پناہ چیلنجز کے باوجود اس مشکل سے موثر انداز میں نمٹے گی۔ اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر جنہوں نے سندھ اور بلوچستان کے علاقوں کا بھی دورہ کیا، سینکڑوں لوگوں کے بے گھر ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اقوام متحدہ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو مدد فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اکیلے اس چیلنج پر قابو نہیں پا سکتا اور اس سلسلے میں عالمی برادری سے تعاون کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی نے پاکستان میں ‘سپر فلڈز’ میں کردار ادا کیا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک مناسب حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

جولین ہارنیس نے کہا کہ بین الاقوامی اپیل کے ذریعے جمع ہونے والے فنڈز صحت اور ہنگامی خدمات اور مویشیوں کی ویکسینیشن کے مسائل کا احاطہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی بنیادوں پر رسپانس سہولیات چیلنج سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی قومی صلاحیت میں معاونت کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے مقامی حکام کے ساتھ تعاون کا آغاز کیا ہے جس میں لسبیلہ، بلوچستان میں پانی کے علاوہ مویشیوں کی ویکسینیشن کے لئے 3 بلین ڈالر کی سپلائی بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور وزارت خارجہ کے حکام سے ملاقاتیں کی ہیں اور مزید کہا کہ اگر مزید امداد کی ضرورت ہوئی تو اقوام متحدہ اس پر رسپانس دے گا۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ماہرین کل سیلاب زدہ علاقے کا دورہ کریں گے تاکہ ضروریات کا جائزہ لیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلاب کے بعد اقوام متحدہ کا مرکزی ہنگامی امدادی پروگرام شروع ہوا۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پاکستان کی آواز کو موثر انداز میں نہیں سنا گیا تھا اور دریائی نظام کے انتظام کے حوالے سے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔