سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لئے مختص 70 ارب روپے میں سے 66 ارب روپے  متاثرہ خاندانوں میں تقسیم ہو چکے ہیں، شازیہ مری

92
Shazia Murry

اسلام آباد۔20اکتوبر (اے پی پی):بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے لئے وزیراعظم کی طرف سے مختص کردہ 70 ارب روپے کی رقم میں سے 66 ارب روپے 26 لاکھ 48 ہزار 824 متاثرہ خاندانوں میں تقسیم ہو چکی ہے، بی آئی ایس پی کے تحت زیادہ سے زیادہ امداد پہنچانے کے لئے متحرک رجسٹریشن کا پروگرام شروع کرنے جارہے ہیں، ابھی تک جن علاقوں میں موبائل نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے رجسٹریشن نہیں ہو سکی اس کا بھی حل نکالیں گے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی میں مختلف ارکان کی طرف سے اٹھائے گئے نکات کے جواب میں وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہ انتہائی پیچیدہ حالات سے گزر رہے ہیں۔ فوڈ سیکیورٹی کے حوالے سے وفاقی وزیر محنت سے کام کر رہے ہیں ، وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں، ان کے انداز سے کسی کو اعتراض ہو سکتا ہے مگر وہ معاملات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم کی زیر صدارت آج ہونے والے اجلاس میں سیلاب کی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔

وزیراعظم نے نکاسی آب اور دشواریوں کے خاتمے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم سندھ روانہ ہو رہے ہیں وہاں موقع پر جاکر وہ بجلی کی فراہمی سمیت دیگر امور کا جائزہ لیں گے۔ جن جن علاقوں میں ابھی تک پانی کھڑا ہے وہاں زرعی زمین آباد نہیں ہو سکتی۔ بیجوں کی فراہمی کے حوالے سے وفاقی حکومت نے تمام صوبوں کو مل کر کام کرنے کے لئے کہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ نے 50 فیصد سے زیادہ حصہ وفاقی حکومت کو ادا بھی کر دیا ہے، باقی صوبے بھی کاشتکاروں کو بیجوں کی فراہمی کے لئے اپنا حصہ ادا کرکے زیادہ سے زیادہ ایریا کور کر سکتے ہیں۔ ہم سب کو ذاتی پسند و ناپسند سے بالاترہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے عوام اس وقت پارلیمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہم ارکان کی تجاویز کا خیر مقدم کریں گے۔

قبل ازیں مولانا کمال الدین نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ بلاشبہ بارشوں اور سیلاب نے ملک کو بے انتہا نقصان پہنچایا ہے اور اب بھی شدید متاثرہ علاقوں میں پانی کھڑا ہے، جہاں سے پانی اتر بھی گیا ہے مگر وہاں کے لوگ پریشان ہیں۔ میرے حلقہ کی چھ یونین کونسلوں کے سات ہزار درختوں پر مشتمل باغات اجڑ گئے ہیں۔ لوگوں کی چالیس چالیس سال کی محنت ختم ہوگئی ہے۔ شدید بارشوں کا 80 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ زمین داروں کی زیادہ سے زیادہ مدد کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ زرعی ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے کیونکہ اب وہ بجلی کا بل دینے کی سکت نہیں رکھتے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام بہت اچھا اور بہترین پروگرام ہے مگر ابھی تک کئی ایسے علاقے ہیں جہاں موبائل نیٹ ورک نہیں ہے، ان کی اس پروگرام سے مدد نہیں ہو سکتی۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو توسیع دی جائے۔

اس کے جواب میں شازیہ مری نے کہا کہ سیلاب زدہ علاقوں کے متاثرہ علاقوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت پچیس پچیس ہزار روپے کی ادائیگی کی گئی ہے اور اس ضمن میں 70 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بارشوں کی وجہ سے روڈ نیٹ ورک متاثر ہوا، موبائل نیٹ ورک سمیت دیگر مشکلات کے باوجود ہم نے کام کیا۔ ممکن ہے کہ ایسے علاقے موجود ہوں جہاں امداد نہ پہنچ سکی ہو ، ہمیں بتایا جائے ہم مسئلہ حل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے دو لاکھ 41 ہزار سے زائد متاثرہ لوگوں کی مدد کی گئی۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہمہ پہلو رجسٹریشن شروع کرنے جارہی ہے تاکہ کوئی بھی امداد سے محروم نہ رہے اور اس پروگرام سے فائدہ اٹھا سکے۔ مولانا جمال الدین نے کہا کہ ہمارے حلقوں میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں موبائل فون کام نہیں کرتے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان علاقوں میں رجسٹریشن کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے دفاتر قائم کئے جائیں۔ وفاقی وزیر شازیہ مری نے کہا کہ فاضل رکن سے تفصیل لے کر مسئلہ حل کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ابھی تک 26 لاکھ 48 ہزار 824 متاثرہ لوگوں میں 60 ارب سے زائد کی رقم تقسیم کی جاچکی ہے۔ ہم نے کسی پر کوئی احسان نہیں کیا۔ وزیراعظم نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا ہے۔ غوث بخش مہر نے کہا کہ اپر سندھ میں آئل سیڈز گندم سے پہلے کاشت ہوتے ہیں۔ سندھ حکومت متاثرہ علاقوں سے پانی نکالنے کے لئے اقدامات نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ علاقوں سے پانی کی نکاسی کا نظام الاوقات بنایا جائے۔ شازیہ مری نے کہا کہ آج وزیراعظم کی زیر صدارت اجلاس میں پانی کے نکاس کے طریقوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

وزیر پاور کو بھی علاقے کا دورہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ مولانا کمال الدین نے کہا کہ بی آئی ایس پی کے تحت زیادہ تر متاثرین کو نقد امداد فراہم کردی گئی ہے۔ این ڈی ایم اے کا ریلیف اور امداد کا کام سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک متاثرہ لوگوں کے گھر بحال نہیں ہوتے اس وقت تک انہیں بل نہ بھیجے جائیں۔ آغا رفیع اللہ نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بنک کے تمام قرضے انشورڈ ہوتے ہیں، سیلاب سے ماہی گیر بھی متاثر ہوئے ہیں، ماہی گیروں کی امداد کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں۔ کراچی میں صنعتی فضلہ سمندر میں گر رہا ہے یہ معاملہ قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔

خورشید جونیجو نے کہا کہ سیلاب سے 70 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ سندھ میں 1.5 ایکڑ اراضی پانی کے نیچے ہے۔ سکھر اور کوٹری کے درمیان 40 ہزار کیوسک سے زیادہ پانی جارہا ہے جس کی وجہ سے متاثرہ علاقوں سے پانی کا نکاس سست روی کا شکار ہے۔ شازیہ مری نے بتایا کہ ماہی گیروں کی کمیونٹی ملک کی خدمت کر رہی ہے، ان کے سماجی اور معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ان کی مدد کی کوشش کریں گے۔

شازیہ مری نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ماہی گیروں پر بھی پڑے ہیں۔ قائم مقام سپیکر زاہد اکرم درانی نے ماہی گیروں اور زرعی قرضوں کے حوالے سے متعلق معاملات متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کردیئے۔