صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بینکنگ محتسب کے دو مختلف فیصلوں کے خلاف متعلقہ بنکوں کی اپیلیں مسترد کردیں ، متاثرین کو 1 کروڑ 40 لاکھ روپے کی رقم لوٹانے کا حکم برقرار

117

اسلام آباد۔12نومبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے بینکنگ محتسب کے دو مختلف فیصلوں کے خلاف متعلقہ بنکوں کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے متاثرین کو 1 کروڑ 40 لاکھ روپے کی رقم لوٹانے کا حکم برقرار رکھا ہے۔ بینکنگ محتسب نے متاثرین کی اپیل پر البرکہ بینک کو 90 لاکھ روپے اور حبیب بینک کو 50 لاکھ کی رقم لوٹانے کا فیصلہ دیا تھا۔

جمعہ کو ایوان صدر کے میڈیا ونگ سے جاری ایک پریس ریلیز کے مطابق صدر مملکت نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ فراڈ کے متاثرین بشمول ایک اوورسیز پاکستانی کو بینکوں کی انتظامیہ کے ہاتھوں بڑا نقصان اٹھانا پڑا اور انہیں کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا گیا۔ انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ بینکنگ محتسب کی خدمات سے استفادہ کریں تاکہ فراڈ کے معاملات کے ساتھ ساتھ بینک کے اہلکاروں/افسروں کی بدانتظامی کے خلاف ریلیف حاصل کیا جاسکے۔

دونوں کیسوں کی تفصیلات کے مطابق مسز زاہدہ نسیم (شکایت کنندہ) نے البرکہ بینک، ڈی ایچ اے برانچ، لاہور میں 2017 ۔03 ۔03کو اپنا پاکستانی روپے کا اکائونٹ اور2017 ۔03۔ 28 کو برطانوی پائونڈ سٹرلنگ کا اکائونٹ کھولا۔ انہوں نے اپنے چیک اور ٹی ڈی آر درخواست فارم پر دستخط کرنے کے بعد ایک سال کے لیے 10.7 ملین روپے کی ٹرم ڈپازٹ کے لیے درخواست دی۔

اس وقت کے برانچ منیجر عمر اکرام نے بینک کے لیٹر ہیڈ پر انہیں جعلی اور خودساختہ اکائونٹ اسٹیٹمنٹ اور ٹی ڈی آر سرٹیفکیٹ فراہم کیا۔ تاہم جولائی میں درخواست گزار کو معلوم ہوا کہ فراہم کردہ اکائونٹ اسٹیٹمنٹ اور ٹی ڈی آر سرٹیفکیٹ جعلی اور خودساختہ تھے۔ بینک مینیجر نے دھوکہ دہی سے ان کا چیک استعمال کیا اور ٹی ڈی آر کے بجائے ریئل ٹائم گراس سیٹلمنٹ کی درخواست کی۔ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ عمر اکرام نے مبینہ طور پر 125 ملین روپے کی خطیر رقم کا فراڈ کیا اور وہ اپنے بنک صارفین کو اور جعل سازی کے ذریعے بینک اسٹیٹمنٹس بنانے اور فراہم کرنے میں ماہر تھا۔

اس کا اعتراف بینک کی جانب سے کیا گیا جس نے کلائنٹس کی پالیسیوں کو منسوخ اور مختلف معاملات میں متعلقہ اکائونٹس میں رقم واپس کی تھی۔ اس کیس میں اکرام کے ذاتی ڈرائیور کے بینک اکائونٹ میں 90 لاکھ روپے کی رقم منتقل کی گئی۔ مسز نسیم نے البرکہ بنک سے اپنے کھوئی ہوئی رقم اس کے اکائونٹ میں جمع کرنے کی درخواست کی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس کے بعد، انہوں نے اپنی شکایت کے ازالے کے لیے بینکنگ محتسب سے رابطہ کیا۔

اسی طرح کے ایک دوسرے کیس میں ہالینڈ میں مقیم ایک اوورسیز پاکستانی مشتاق احمد باجوہ (شکایت کنندہ) کا فیصل آباد میں حبیب بینک لمیٹڈ کی برانچ میں پی ایل ایس سیونگ اکائونٹ تھا۔ انہوں نے 2017 ۔04 ۔14کو اس وقت کے برانچ منیجر اختر حسین کو 50 لاکھ روپے کیش کے حوالے کیا۔ برانچ مینیجر نے ڈپازٹ سلپ پُر کی اور اس پر دستخط کرنے اور مہر لگانے کے بعد شکایت کنندہ کے حوالے کر دی۔ بعد میں اس کے بھائی نے اسے ہالینڈ میں مطلع کیا کہ متعلقہ بنک میں ایک اندرونی فراڈ کا ارتکاب کیا گیا ہے اور سابق برانچ مینیجر کی جانب سے متعدد کھاتہ داروں کے جمع کردہ فنڈز میں غبن کیا گیا ہے۔

منیجر نے دھوکے سے ڈپازٹ سلپ پر ذاتی طور پر دی گئی نقد رقم کے بجائے کچھ خیالی چیک نمبر درج کر دئیے تھے۔ مزید برآں، بینک نے مرکزی ملزم اور اس کے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی اے فیصل آباد میں ایف آئی آر درج کرائی۔ بینک نے مشتاق باجوہ کی شکایت کو تسلیم کرنے کے باوجود ان کے دعوے کی ادائیگی نہیں کی، جس کے بعد، شکایت کنندہ نے انصاف کے حصول کے لیے بینکنگ محتسب سے رجوع کیا۔

بینکنگ محتسب نے دونوں کیسز کی چھان بین کی اور حقائق کا جائزہ لینے کے بعد متعلقہ بینکوں کو حکم دیا کہ شکایت کنندگان کو ان کی کھوئی ہوئی رقم سے واپس کی جائے۔ وفاقی محتسب نے کہا کہ شکایت کنندگان نے اپنی محنت کی کمائی متعلقہ بینکوں کے حوالے کی اور یہ بینکوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے صارفین کا تحفظ کریں۔ انہوں نے قرار دیا کہ مستعد بینک حکام، ایماندار اور پیشہ ور عملے کی تقرری بینک کی ذمہ داری ہے شکایت کنندگان کی نہیں ہے۔

بنکنگ محتسب نے کہا کہ بینک ایسے معاملات میں ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا جب اکائونٹ ہولڈر کے ساتھ اس کی انتظامیہ کی طرف سے دھوکہ دہی کا ارتکاب ثابت ہو جاتا ہے۔ محتسب نے حکم دیا کہ دونوں بینک مزید تاخیر کے بغیر شکایت کنندگان کے نقصان کو پورا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ اس کے بعد، بینکوں نے بنکنگ محتسب کے فیصلوں کے خلاف الگ الگ اپیلیں دائر کیں۔

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے محتسب کے دونوں فیصلوں کو اس بنیاد پر برقرار رکھا کہ بینکوں کو شکایت کنندگان کے دعوے مسترد کرنے کا باقاعدہ موقع دیا گیا، مگر بینک اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے ، صدر مملکت نے اپنے حکم نامے میں قرار دیا کہ بینکوں نے بینکنگ محتسب کا فیصلہ مسترد کرنے کا کوئی مناسب جواز فراہم نہیں کیا ، اس لئے ان کی اپیل مسترد کی جاتی ہے۔