سب کےلیےصحت اورتعلیم کی سہولیات اورخوراک کی فراہمی کو یقینی بنانانئےعالمی نظام کا ہدف ہونا چاہئے، صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی کابین الاقوامی کانفرنس سےخطاب

305
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا سینٹر فار ایرو سپیس اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے زیر اہتمام بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد۔19اکتوبر (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ سب کے لیے صحت اور تعلیم کی سہولیات اور خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانا نئے عالمی نظام کا ہدف ہونا چاہئے جس کی بنیاد عوام اور ریاستوں کے درمیان اخلاق، ہمدردی اور مساوات پر ہو، مفادات پر مبنی عالمی پالیسیوں اور قوانین پر عمل پیرا ہونے کے بجائے دنیا کو مزید انسان دوست اور ماحول دوست پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے، طاقت کی بدلتی ہوئی حرکیات کو تسلیم کرنا اور ٹیکنالوجی کے نقصان دہ استعمال اور اثرات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک بہتر اور محفوظ مستقبل کو یقینی بنایا جا سکے۔

صدر مملکت نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو یہاں سینٹر فار ایرو اسپیس اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (CASS) اسلام آباد میں گلوبل اسٹریٹجک تھریٹ اینڈ ریسپانس کی بین الاقوامی کانفرنس "بدلتا ہوا عالمی نظام: چیلنجز اور مواقع” کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو، سی اے ایس ایس کے صدر ائیر مارشل فرحت حسین خان، سفارتی اور دفاعی برادری کے ارکان، ماہرین تعلیم، تھنک ٹینکس اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ انسانیت کو Mutually Assured Destruction (MAD) جیسے حفاظتی اصولوں سے گریز کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نسل انسانی کے لیے خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ انسانیت کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مختلف سیکیورٹی پالیسیوں کی ضرورت ہے، اسلحہ اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر اربوں ڈالر خرچ کیے گئے ہیں جنہیں بھوک، افلاس اور غربت سے نمٹنے کے لیے بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ نئے ورلڈ آرڈر کو محبت، نفرت اور فوبیا جیسے انسانی جذبات کو مدنظر رکھنا چاہیے جو پہلے قوموں کے درمیان جنگوں کا باعث بنتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی فوبیا کو ہمدردی اور اخلاقیات پر مبنی عقلیت اور عالمی قوانین کے شفاف اور منصفانہ اطلاق کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔

صدر مملکت نے کہا کہ وہ انسانی تاریخ کی طرح انسانی معاشروں سے جنگ کے مکمل خاتمے کے حامی ہیں، جنگ کو انسانی اور تہذیبی بنانے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور جنگیں انسانیت کے لیے درد اور مصائب کا سبب بنتی رہی ہیں ۔ صدر نے کہا کہ مختلف شعبوں میں ابھرتے ہوئے چیلنجز کے پیش نظر ہمیں جدت کی حوصلہ افزائی کے لیے اجتماعی کوششیں کرنے، عالمی تعاون کو فروغ دینے اور درپیش اہم مسائل سے نمٹنے کے لیے قیادت کو تحریک دے کر ایک بہتر اور محفوظ دنیا بنانے کے لیے بہتر اور زیادہ سازگار پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے۔

صدر نے کہا کہ ریاستوں کو کثیر القومی اور عالمی کرداروں کی طرف سے چیلنج کیا گیا ہے ، ماضی میں جمہوریتوں اور ریاستوں کو مختلف طاقتوں کی لابیوں کے ذاتی مفادات نے نقصان پہنچایا۔ صدر مملکت نے کہا کہ انسانی تاریخ قوموں کے درمیان جنگ اور ظلم کی مثالوں سے بھری پڑی ہے، حالیہ تاریخ میں کئی بار جوہری ہتھیاروں کی وجہ سے انسانیت ناپید ہونے کے قریب پہنچی اور صرف انسانی فیصلے اور مداخلت کی وجہ سے محفوظ رہی۔ پاکستانی حدود میں ہندوستانی میزائل کے گرنے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی میں پیشرفت بشمول مصنوعی ذہانت، وار بوٹس، ہائپرسونک میزائل، سائبر سیکیورٹی اور خلاء کی ملٹرائزیشن کو کنٹرول کیا جانا چاہیے تاکہ عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔

صدر عارف علوی نے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد اور بین الاقوامی قوانین کے منصفانہ اطلاق پر زور دیا اور کہا کہ بھارتی غیر قانونی مقبوضہ جموں و کشمیر کا مسئلہ 75 سال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر ہے تاہم کئی سالوں سے اقوام متحدہ کی متعدد قراردادوں کے باوجود یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مہاجرین کے ساتھ بھی رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر یکساں سلوک کیا جانا چاہیے، پاکستان نے انسانی بنیادوں پر 40 سال تک 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کو "سب سے زیادہ اہم انسانی مسئلہ” قرار دیتے ہوئے صدر نے انسانی تصرف کے طریقوں میں تبدیلی لانے پر زور دیا اور کہا کہ اس عالمی چیلنج سے نمٹنے کے لیے ایک عالمی حل کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانیت کو اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے پائیدار اور ماحول دوست رویے اور پالیسیاں اپنانی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سپر فلڈ کا سامنا کرنا پڑا جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں اور معاش پر تباہ کن اثرات مرتب کیے اور اندازاً 40 ارب امریکی ڈالر کا معاشی نقصان پہنچایا۔ کانفرنس سے پاک فضائیہ کے سربراہ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے بھی خطاب کیا۔

انہوں نے کہا کہ سائبر سیکیورٹی کے چیلنجز، قومی عزم کو فروغ دینا اور ادارہ جاتی اصلاحات اہم ہیں، پاک فضائیہ پاکستان کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گی، پی اے ایف کو جدید تقاضوں کے مطابق لانے اور ابھرتے ہوئے سیکیورٹی خطرات پر قابو پانے کے لیے اس میں ڈھانچہ جاتی اور تنظیمی اصلاحات کا آغاز کیا گیا ہے۔ ایرو اسپیس انڈسٹری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے انہوں نے آئندہ چند ماہ میں اسلام آباد میں نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک کھولنے کا اعلان کیا۔

دو روزہ کانفرنس میں پاکستان کی جیو اکنامکس، علاقائی رابطے اور ایرو اسپیس سیکیورٹی، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور مستقبل کی جنگ، جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک استحکام اور مصنوعی ذہانت اور سائبر وارفیئر سمیت اہم موضوعات پر غور کیا جائے گا۔