عورتوں کے مسائل حل کرنے کے لئے عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت اہم کردار ادا کر سکتی ہے،نیلوفربختیار

55
Nilofar Bakhtiar
Nilofar Bakhtiar

اسلام آباد۔6جون (اے پی پی):قومی کمیشن برائے وقار نسواں نے عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت کے موضوع پر پیر کو یہاں ایک مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا جس میں پاکستانی سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں، خواتین ونگ کی سربراہان اور سول سوسائٹی کے علاوہ حکومتی عہدیداران نے شرکت کی۔ قومی کمیشن برائے وقار نسواں کی چیئرپرسن نیلوفر بختیار نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عورتوں کے مسائل حل کرنے کے لئے عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت اہم کردار ادا کر سکتی ہے اور آئندہ آنے والے انتخابات میں خواتین کی شمولیت کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے کمیشن ہر طرح کے اقدامات کر رہا ہے اور یہ اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

انہوں کہا کہ جونہی ملک میں کوئی مسئلہ درپیش ہو ہمیشہ عورتوں کا ایجنڈا پیچھے چلا جاتا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ ملک کی نصف آبادی کیا صرف ووٹ دینے کے لئے ہے ، کیا ان کو لیڈرشپ کا رول کہیں نہیں دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کی ترجمان نگہت صدیق نے کہا کہ الیکشن سے پہلے یہ اہم وقت ہے جب سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر ووٹر لسٹوں پہ کام کرنا چاہیے کیونکہ عام انتخابات کے اعلان کے بعد ووٹر لسٹ پر کام ممکن نہیں ہوسکے گا ۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں خواتین کو درپیش مشکلات کی وجہ سے ثقافتی تقاضوں کو مدنظر رکھ کر پولنگ آفیسرز کی تربیت کی جا رہی ہے تاکہ خواتین کی زیادہ سے زیادہ سیاسی شمولیت کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس موقع پر نادرہ کی ترجمان معظمہ یوسف نے کہا کہ نادرہ ایک ریسورس فل ادارہ ہے اور اس کے قائم کردہ سینٹرز میں سے 90 فیصد مراکز میں خواتین اہلکار موجود ہیں۔ نادرا اور الیکشن کمیشن نے مل کر خواتین کی رجسٹریشن کے لئے کئی مہم چلائی ہیں اور حالیہ الیکشن کے لئے اب تک 15 لاکھ خواتین کی رجسٹریشن کرچکے ہیں جبکہ ہم نے افراد باہم معذوری کے ساتھ بھی مہم چلا رہے ہیں جس میں خواتین باہم معذوری کو بڑی تعداد میں رجسٹرڈ کیا جارہا ہے

انہوں نے مزید کہا کہ اب 2 ہزار 9 سو ٹرانس جینڈر کو رجسٹرڈ کیا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکن فرزانہ باری نے کہا کہ نادرا نے ووٹرز کا جینڈر گیپ ختم کرنے کے لئے بہت کام کیا ہے مگر انکو کام کی رفتار بہت تیز کرنا ہوگی ورنہ ووٹ دینے کی عمر کی 1 کروڑ خواتین کو رجسٹرڈ ہونے میں 25 سال لگ جائینگے ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ آخری مردم شماری کے مطابق ٹرانس جینڈر کی تعداد 10418 ہے جبکہ نادرا نے اب تک صرف 2900 رجسٹرڈ کئیے ہیں ۔

ضروری ہے کہ جلد از جلد خواتین، ٹرانس جینڈر اور افراد باہم معذوری کی رجسٹریشن کے عمل کو تیز کیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ اگر کسی بھی پولنگ سٹیشن میں خواتین ووٹرز کی تعداد 10 فیصد سے کم ہو تو وہاں کے الیکشن رزلٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔ یو این ویمن کے نمائندے حسن حکیم نے کہا کہ خواتین کو سیاسی عمل کا حصہ بنانے کے ساتھ ساتھ جمہوری اداروں میں اہم فورم کا حصہ بھی بنایا جائے جیسے پارلیمانی کمیٹی اورمختلف اداروں میں فیصلہ سازی مثلاً بجٹ یا اسی طرح کے اہم ملکی امور جس میں روایتی طور پر عورتوں کی شمولیت کم ہوتی ہے .

اجلاس میں چند سفارشات منظور کی گئیں جس میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کا نادرا سے رابطہ خاص طور پہ خواتین باہم معذوری اور اقلیتوں کے حوالے سے ہونا چاہئے۔اگر کسی بھی پولنگ اسٹیشن پہ خواتین ووٹرز کی تعداد 10 فیصد سے کم ہو تو الیکشن کمیشن نوٹس لے ، خواتین ووٹرز کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے ، نادرا، الیکشن کمیشن، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کو ملکر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ، ٹرانس جینڈر اور خواتین باہم معذوری کی رجسٹریشن کو یقینی بنانا چاہیے ۔

خواتین کے 33 فیصد براہ راست کوٹے پہ عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔کوٹہ سسٹم کے ذریعے منتخب ہونے والی خواتین کے میرٹ کو عوام کے سامنے رکھا جائے ، ملک میں ہر حلقے سے خواتین نشستوں کے مواقع ہونے چاہئیں۔ اسلام آباد میں خواتین کے لئے سیٹ مختص کی جائے نیز آزاد جموں کشمیر کے لئے 5 فیصد کوٹہ خواتین کے لئے مختص ہونا چاہئے۔این سی ایس ڈبلیو اجلاس کی تمام سفارشات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لئے انہیں تمام متعلقہ اداروں کو بھیجے گا۔