تل ابیب ۔17مئی (اے پی پی):اسرائیلی فوج نے ہفتے کی صبح اعلان کیا ہے کہ اس نے غزہ کی پٹی میں ایک نیا اور بڑا فوجی آپریشن شروع کر دیا ہے۔العربیہ اردو کے مطابق فوج نے سوشل میڈیا پر جاری بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ روز اسرائیلی افواج نے غزہ کے مختلف علاقوں میں مکمل حملے شروع کیے اور اپنی افواج کو تعینات کیا تاکہ ان علاقوں پر عملی کنٹرول حاصل کیا جا سکے۔
فوج کے مطابق یہ کارروائیاں جنگ کے مقاصد کے حصول کا حصہ ہیں جن میں قیدیوں کی رہائی شامل ہے۔اس سے قبل اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے بتایا تھا کہ یہ کارروائیاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ مشرق وسطیٰ کے بعد وسیع کی جائیں گی بشرطیکہ اس وقت تک غزہ کے بارے میں کوئی نیا معاہدہ نہ ہو جائے۔ صدرڈونلڈ ٹرمپ نے خلیجی ممالک کا اپنا کئی روزہ دورہ مکمل کر لیا اور ابھی تک کسی نئے معاہدے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔
گزشتہ روزفلسطینی سرکاری خبر رساں ایجنسی وفا نے بتایا کہ جمعرات کی شام سے غزہ کی پٹی کے شمال میں اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں100 افراد شہیدہو چکے ہیں۔ غزہ میں وزارت صحت نے بتایا کہ ان حملوں میں 93 افراد شہید اور 200 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ادھر اقوام متحدہ کے انسانی امور کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے کہا کہ غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے کسی متبادل امریکی منصوبے پر وقت ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے پاس اس مقصد کے لیے ایک قابلِ اعتماد منصوبہ موجود ہے اور ایک لاکھ60ہزار امدادی پیکج غزہ میں داخلے کے لیے تیار ہیں۔ٹام فلیچر نے اپنے بیان میں کہا کہ جو لوگ امداد کی تقسیم کے لیے کوئی متبادل طریقہ تجویز کر رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ وقت ضائع نہ کریں کیوں کہ ہمارے پاس اس وقت بھی ایک موثر منصوبہ موجود ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے مسلسل75دنوں سے غزہ میں انسانی امداد کا داخلہ روکا ہوا ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ روزٹام فلیچر کو تنقید کا نشانہ بنایا کیوں کہ انھوں نے سلامتی کونسل سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا وہ غزہ میں ممکنہ نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی موثر قدم اٹھائے گی، جہاں ماہرین نے قحط کے حوالے سے شدید انتباہ جاری کیا ہے۔تام فلیچر نے اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ موثر اقدام کریں گے تاکہ نسل کشی روکی جا سکے اور بین الاقوامی انسانی قانون کا احترام یقینی بنایا جا سکے۔اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی دانون نے ٹام فلیچر کے نام ایک خط میں ان پر سیاسی خطبہ دینے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ انھوں نے نسل کشی جیسے لفظ کو اسرائیل کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
دانون نے سوال اٹھایا کہ ٹام فلیچر نے یہ بات کس اختیار کے تحت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کی حیثیت سے ان کا یہ بیان غیر مناسب، غیر ذمہ دارانہ اور جانب داری کا مظہر تھا۔ بین الاقوامی قانون میں نسل کشی سے مراد کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کو جزوی یا کلی طور پر ختم کرنے کا ارادہ ہوتا ہے، اس میں قتل، جسمانی یا ذہنی اذیت پہنچانا یا ایسے حالات پیدا کرنا شامل ہے جن سے ان کی مکمل تباہی ممکن ہو۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=598093