قرارداد پاکستان کے بعد پیغام پاکستان سب سے اہم دستاویز ہے،وفاقی وزیر پیرنورالحق قادری، حافظ طاہر محمود اشرفی، علامہ عارف واحدی، پیر ہارون گیلانی، پیر نقیب الرحمن سمیت دیگر علما کرام و مشائخ کا پیغام پاکستان کانفرنس میں اظہار خیال

133

اسلام آباد۔23ستمبر (اے پی پی):پیغام پاکستان کانفرنس میں شریک تمام مکتبہ ہائے فکر کے جید علما کرام اور مشائخ عظام نے کہا ہے کہ قرارداد پاکستان کے بعد پیغام پاکستان سب سے اہم دستاویز ہے، اسے ملک کے تمام تعلیمی اداروں سمیت نچلی سطح تک پہنچا کر ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہو گا، تمام مکتبہ ہائے فکر کے علما و مشائخ نے مل کر جس طرح فتنوں کا سر کچلا ہے سیاسی زعما بھی اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں، موجودہ صورتحال میں سیاسی تقسیم سے ملک کو نقصان پہنچے گا، قانون کے نام پر لاقانونیت نہیں ہونی چاہئے، پیغام پاکستان ایک بہترین دستاویز ہے، قومی اور علاقائی سطح تک اس پیغام کو عام کیا جائے۔ جمعرات کو متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان اسلام آباد کے زیر اہتمام مقامی ہوٹل میں پیغام پاکستان کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پیغام پاکستان کی روشنی میں بین المذاہب و المسالک ہم آہنگی اور فرقہ واریت کے خاتمہ کے عنوان سے تمام مکتبہ ہائے فکر کے جید علما و مشائخ نے اظہار خیال کیا۔ کانفرنس جمعیت اہلحدیث پاکستان اسلام آباد کے روح رواں سید ضیا اللہ شاہ بخاری کی جانب سے منعقد کی گئی جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور پیرنورالحق قادری، حافظ طاہر محمود اشرفی، علامہ عارف واحدی، پیر ہارون گیلانی، پیر نقیب الرحمن ، علامہ راجہ ناصر عباس سمیت دیگر علما کرام و مشائخ نے شرکت کی۔ مقررین کا خیال تھا کہ قرارداد پاکستان کے بعد پیغام پاکستان سب سے اہم دستاویز ہے اسے تمام تعلیمی اداروں، مساجد، مدارس، گوردواروں اور چرچز سمیت نچلی سطح تک عام کرنے کی ضرورت ہے، جس طرح تمام مکاتب فکر کے علما نے مل کر مختلف مواقع پر ہر قسم کے فتنوں کا سر کچلا ہے اسی طرح ملک کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی زعما کو بھی چاہئے کہ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں کیونکہ موجودہ صورتحال میں اگر سیاسی تقسیم اسی طرح رہی تو ملک کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کے نام پر لاقانونیت نہیں ہونی چاہئے، قوانین کے نفاذ کے ساتھ ساتھ ہمیں اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے، پیغام پاکستان ایک بہترین دستاویز ہے، اسے قومی اور علاقائی سطح پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ چہلم کے موقع پر بین المسالک ہم آہنگی یقینی بنانے کیلئے پیغام پاکستان کی روشنی میں تشکیل دیئے گئے ضابطہ اخلاق کو مدنظر رکھا جائے جس میں یہ کہاگیا ہے کہ تمام شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو تسلیم کریں، ریاست پاکستان کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں اور ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام شہری دستور پاکستان میں درج تمام بنیادی حقوق کے احترام کو یقینی بنائیں، ان میں مساوات، سماجی اور سیاسی حقوق، اظہار خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی شامل ہیں۔ دستور پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانین پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کیلئے پرامن جدوجہد کریں۔ اسلام کے نفاذ کے نام پر جبرکا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومتی، مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے افراد سمیت کسی بھی فرد کو کافر قرار دے۔ علما، مشائخ اور زندگی کے ہر شعبہ سے متعلقہ افراد کو چاہئے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں تاکہ معاشرے سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے، ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبراً اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔ کوئی نجی یا سرکاری مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی ، انتہا پسندی اور تشدد کو فروغ نہ دے، ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے سے ہوں، کے خلاف سخت انتظامی اور تعزیری اقدامات کئے جائیں گے۔ اسلام کے تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں مگر کسی کو کسی شخص ، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ کوئی شخص خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ ، جملہ انبیائے کرام، امہات المومنین، اہل بیت اطہار، خلفا راشدین اور صحابہ کرامؓ کی توہین نہیں کرے گا، کوئی فرد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا نہ ہی توہین رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ بنے گا۔ کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی نظریے کی اساس پر کرے گا، البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے(مسلمان کی تعریف وہی معتبر ہو گی جو دستور پاکستان میں ہے)۔ کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا، دہشت گردوں کی ذہنی و جسمانی تربیت نہیں کرے گا، ان کو بھرتی نہیں کرے گا اور کہیں بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو گا۔ سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلاف رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کیلئے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔ تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔ بزرگ شہریوں، خواتین، بچوں، خنثیٰ اور دیگر تمام کم مستفیض افراد کے حقوق کے حوالہ سے اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے عقائد کے مطابق کریں۔ اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتاہے، کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ، تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے۔ ہر فرد غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ سے باز رہے کیونکہ یہ اسلام کی رو سے ممنوع ہیں۔ کوئی شخص مساجد، منبر و محراب، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پر مبنی تقاریر نہیں کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالہ سے اخبارات اور ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو نہیں کرے گا۔ آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے، اس لئے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔