قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال23-2022 کے بجٹ پر بحث جاری، ارکان کی مشکل حالات میں متوازن اورعوام دوست بجٹ پیش کرنے پر حکومتی ٹیم کو مبارکباد

55
Speaker and Deputy Speaker
Speaker and Deputy Speaker

اسلام آباد۔22جون (اے پی پی):قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال23-2022 کے بجٹ پر بحث بدھ کو بھی جاری رہی جس میں ارکان نے مشکل حالات میں متوازن اورعوام دوست بجٹ پیش کرنے پر حکومتی ٹیم کو مبارکباد دی،ارکان نے گیس کنکشنوں پر عائد پابندی ختم کرنے کر ضرورت پر زور دیا،سولر کی درآمدپر عائد ڈیوٹی کے خاتمے،بیجوں پر ٹیکس خاتمہ کو اہم قدم قراردیا،صحت کارڈ کی بجائے سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے،معیار تعلیم کو بہتر بنانے کے لئے مزید اقدامات اٹھائے جائیں۔

بدھ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے رکن قومی اسمبلی وحید عالم خان نے بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں کے گستاخانہ بیانات کی شدید مذمت کی ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے عمران خان کی کرپشن اور نااہلی کا بوجھ ملکی مفاد میں اٹھایا ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت میں اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ اس ملک کی معیشت کو مشکلات سے نکال سکتی ہے۔ وحید عالم خان نے عمران خان اور شیخ رشید پر شدید تنقید کی اور کہا کہ شیخ رشید سیاست کا مسخرہ ہے۔

عمران خان ڈی چوک آئے، لوگوں کو نیولے اور سانپ کا کھیل دکھانے کا وعدہ کیا مگر آخر میں سانڈھے کا تیل بیچ کر فرار ہوگئے، اب کوفیوں کی طرح بنی گالہ میں چھپ گئے ہیں۔ انہوں نے بجٹ کے حوالے سے کئی تجاویز بھی دیں جن میں حبیب بنک کے پنشنرز کی کم از کم پنشن 8 ہزار روپے مقرر کرنے، متبادل توانائی پر توجہ دینے سمیت کئی تجاویز شامل تھیں۔ انہوں نے کہا کہ پیپر انڈسٹری پر توجہ دی جائے کیونکہ کتابیں مہنگی ہونے کی وجہ سے 6 لاکھ کے قریب بچے سکولوں میں نہیں جاسکتے۔

مسلم لیگ ن کے رکن چوہدری فقیر احمد نے کہا کہ معاشی لحاظ سے مشکل حالات میں یہ ایک بہتر بجٹ ہے۔ پورے پاکستان میں محکمہ صحت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ شہباز شریف جب وزیراعلیٰ تھے تو پنجاب میں مفت ادویات کے علاوہ ہسپتال تک پہنچنے کا کرایہ بھی دیا جاتا تھا۔ بجٹ میں اس طرح کے اقدامات کی گنجائش رکھنی چاہیے۔ تھر اور چولستان میں پانی کی کمی اور صحت کے مسائل پر توجہ دی جائے۔ جب تک ملک کے ہر شہری کو لکھنے پڑھنے کے مواقع دستیاب نہ ہوں وہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔

بنگلہ دیش میں شرح خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے، ہر بچے کو میٹرک تک مفت تعلیم کی سہولت ملنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گلوبل انسٹی ٹیوٹ کے نام سے ایک یونیورسٹی بنی ہے جس میں 8 ہزار سے زائد طلباء و طالبات داخل ہیں، مگر ان بچوں کو ابھی تک ڈگریاں نہیں ملیں۔ ایچ ای سی نے کہا ہے کہ ادارہ کو ڈگری دینے اور کیمپسز کھولنے کا اختیار نہیں ہے، اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔

انہوں نے کہا کہ زراعت کے لئے اقدامات بروقت ہونے چاہئیں، زراعت پر توجہ دیئے بغیر ہمارا ملک غذائی خود کفالت کی منزل حاصل نہیں کر سکتا۔ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی ارمغان سبحانی نے بجٹ پر بحث کے دوران بھارت میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنمائوں کی جانب سے توہین آمیز ریمارکس کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ جن حالات میں پیش کیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہیں، مشکل حالات میں حکومت نے متوازن بجٹ دیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ زراعت کو اس میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ جب تک ملک میں سرسبز انقلاب نہیں آتا ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اس وقت دھان کی فصل کی پنیر کے لئے یوریا کھاد دستیاب نہیں ہے۔

حکومت جعلی ادویات اور جعلی کھادوں کے خاتمے کے لئے اقدامات کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک اسلام اور جمہوری روایات پر بنایا گیا ہے، اس ملک کے نظام کو جمہوری اقدار اور شفافیت پر چلانا چاہیے۔ کرپشن کے خاتمہ اور انصاف کے بول بالا کے لئے آئینی اداروں کے ذمہ داران کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ آئین کی پاسداری کو یقینی بنانا ہوگا کیونکہ اس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا۔

انہوں نے ملک میں سینئر سٹیزن کونسل کے قیام کا مطالبہ بھی کیا۔ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شازیہ صوبیہ نے کہا کہ وزیر خارجہ اور حکومت کی کوششوں سے پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل رہا ہے جو خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکھر میں این فائیو کے لئے صرف 50 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جو بہت کم ہیں۔

اسی طرح ایک پل کی تعمیر کے لئے بھی فنڈز کم رکھے گئے ہیں اس سے پراجیکٹ کی تکمیل کی مدت میں اضافہ ہوگا۔ ڈاکٹر شازیہ صوبیہ نے کورونا فنڈ میں کرپشن اور ایم ڈی کیٹ کا کنٹریکٹ ایک دیوالیہ کمپنی کو دینے کے معاملات کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا۔ مسلم لیگ ن کے علی گوہر خان نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ نامساعد حالات میں بہتر بجٹ دیا گیا ہے۔

مختلف شعبوں کے لئے ریلیف دینا مشکل تھا لیکن اللہ کے فضل سے بڑے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فیصل آباد تا تاندلیانوالہ سڑک کا کافی حصہ ابھی رہتا ہے اس کو مکمل کیا جائے۔ فیصل آباد ساہیوال روڈ پر سمندری تا ساہیوال سیکشن کی منظوری ہو چکی ہے جس پر میں وزیراعظم کا مشکور ہوں۔ علی گوہر نے کہا کہ مشکل حالات میں حکومت نے ترقی کا سفر نہیں چھوڑا ہے۔ پی ایس ڈی پی میں اس حوالے سے فنڈز مختص کرنا خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا ک آر ٹی ایس سسٹم بند کرکے جب عمران نیازی کو مسلط کیا گیا تو ڈالر 115 اور چینی 50 روپے کلو تھی، پونے چار برسوں میں ملکی معیشت کو تباہ کیا گیا۔

مسلم لیگ ن کے رکن اظہر قیوم ناہرہ نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ چار سالہ نحوست کے خاتمہ پر قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، وزیر خزانہ نے مشکل حالات میں متوازن بجٹ پیش کیا جس میں عام آدمی پر کوئی زیادہ بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم نے اپنی سیاست پر ریاست بچانے کو ترجیح دی ہے، یہ دلیرانہ فیصلہ ہے، پاکستان کے حالات بہتر ہوں گے، پی ٹی آئی اور مہنگائی عارضی ہیں ان سے جلد پاکستانیوں کی جان چھوٹ جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کو سولر پر سبسڈی دی جائے تاکہ بجلی کی بچت ہو۔ گیس کے کنکشن پر عائد پابندی اٹھائی جائے۔ جمیعت علما اسلام (ف) کے رکن سید محمود شاہ نے کہا کہ معیشت کے موجودہ حالات دوماہ کی کارستانی نہیں بلکہ گزشتہ دور حکومت کے اقدامات اور فیصلوں کا تسلسل ہے۔ پیسے کے زیر گردش رہنے اور روزگار سے بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان سب سے پسماندہ صوبہ ہے،صحت،تعلیم کی مد میں بجٹ بڑھایا جائے۔ 90 فیصد گیس بلوچستان سے نکلتی ہے اور وہاں اکثر علاقوں میں گیس نہیں ہے، میرے حلقے میں پلانٹ لگا کر گیس دی جائے۔ قومی اسمبلی میں بلوچستان سے بھرتی کئے جانے والے ملازمین کی تعداد سے آگاہ کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں یوٹیلٹی سٹور کھولے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں ہوٹلوں والے عوام سے ٹیکس کاٹتے ہیں اور قومی خزانہ میں جمع نہیں کرواتے اس کا نوٹس لیا جائے۔ رکن قومی اسمبلی مولانا جمال الدین نے کہا کہ افغانستان میں زلزلہ آیا ہے، وہاں پر ہمارے بھائی، بہنیں مشکل میں ہیں، وہ ہمارا برادر ملک ہے،حکومت وہاں ایک اعلی سطح کا وفد بھیجے۔ پاک افغان سرحد کھولی جائے تاکہ لوگ ان کی مدد کریں۔یہ ایک انسانی سانحہ ہے اس پر عالمی ادارے تعاون کریں۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن ڈاکٹر نثار احمد چیمہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت کا دور پاکستان کا بدترین دور تھا جس میں تباہی اور بربادی کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے ہیں، اس وقت کی اپوزیشن کو یہ اندازہ تھا کہ تباہی اور بربادی ہے تاہم اس کے حجم کا اب اندازہ ہوا ہے، اس دور میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے قرضے لئے گئے، احتساب کے نام پر بدترین انتقامی کارروائیوں کی مثالیں قائم کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کے وعدوں اور اعلانات پر اس ملک میں اب مزاحیہ فلمیں بنیں گی۔ پوسٹنگ اور ٹرانسفر پر گوگی ماڈل متعارف کیا گیا۔ ان کے آتے ہی ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کا سیلاب آیا۔ نثار چیمہ نے کہا کہ عوام کسی مہنگائی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھیں اور آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کریں۔

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے اپوزیشن لیڈر ہوتے ہوئے میثاق معیشت کی پیشکش کی لیکن اس نے اس کا مذاق اڑایا۔ اب بھی موقع ہے کہ عالمی ساہوکاروں کے چنگل سے نکلنے کے لئے مل بیٹھیں۔انسانی وسائل کی ترقی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ مسلم لیگ ن کی رکن زہرہ ودود فاطمی نے کہا کہ مشکل حالات میں حکومت نے بہترین بجٹ پیش کیا۔ صحت کے شعبہ میں بہت مسائل ہیں۔ تھیلیسیمیا کا مرض بڑھتا جارہا ہے ۔ تھیلیسیمیا اور کینسر کے مریضوں کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ہیپا ٹائٹس ایک وبا کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

بنیادی ہیلتھ سنٹرز کو فعال بنایا جائے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنایا جائے اس سے عوام کو پرائیویٹ سکولوں کی بھاری فیسوں سے نجات مل جائے گی۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، آبادی میں اضافے کے ساتھ ہماری زرعی اراضی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ بنیادی صحت مراکز کو بہتر بنانے سے ہیلتھ کارڈ کی ضرورت نہیں رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت انٹرپرینیور شپ پروگرام شروع کیا جائے۔ رکن قومی اسمبلی روبینہ عرفان نے کہا کہ ہماری معیشت کہاں سے کہاں چلی گئی مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ہم بلوچستان کے نمائندے ہیں۔ اگر میں بلوچستان کی بات نہ کروں تو یہاں رہنا میرا حق نہیں۔ گزشتہ حکومت نے ہمیں کیا دیا۔ سی پیک کے نام پر نوکریوں کا جھانسہ دیا گیا۔ ہمارے پاس گیس نہیں ہے۔ پاکستان نے ایران کے ساتھ گیس کا بہت اچھا معاہدہ کیا تھا اس پر کام کیوں آگے نہیں بڑھ سکا۔ اس پراجیکٹ کو کیوں بند کیا گیا۔

پابندیاں تو روس پر بھی لگی ہوئی ہیں۔ روبینہ عرفان نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف ایک محنتی شخص ہیں، وہ چاہتے ہیں ملک اچھی ڈگر پر چلے۔ انہیں نے کہا کہ ایران اور افغانستان میں ہماری رشتہ داریاں ہیں۔ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے کاروبار بند ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایوان دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کی آوازاٹھائے۔