قومی اسمبلی نے 30 جون 2026ء کو ختم ہونے والے مالی سال کیلئے کابینہ ڈویژن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 81 ارب 45 کروڑ 15 لاکھ روپے کے 29 مطالبات زر کی منظوری دے دی

9
National Assembly
National Assembly

اسلام آباد۔24جون (اے پی پی):قومی اسمبلی نے 30 جون 2026ء کو ختم ہونے والے مالی سال کیلئے کابینہ ڈویژن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 81 ارب 45 کروڑ 15 لاکھ روپے سے زائد کے 29 مطالبات زر کی منظوری دے دی ی جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 225 سے زائد کٹوتی کی تحاریکیں مسترد کر دی گئیں ، وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے کہا ہے کہ ہماری حکومت آنے سے ملک میں معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں، زراعت سمیت ہر شعبہ میں بہتری ہو رہی ہے، وزیراعظم کی قیادت میں حکومت اور عسکری قیادت نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جس سے دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کابینہ کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 68 کروڑ 87 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 26 تحریکیں پیش کی گئیں۔

اقبال آفریدی، عالیہ کامران، شاہد اختر علی، سہیل سلطان، ملک انور تاج اور معظم جتوئی نے کٹوتی کی تحاریک پیش کیں جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے شعبہ کابینہ کیلئے 4 ارب 21 کروڑ 59 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 17 تحاریک پیش کی گئی تھیں۔ عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے ہنگامی امداد و بحالی کے لئے 2 ارب 92 کروڑ 68 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 3 تحاریک پیش کی گئی تھیں۔ شاہدہ اختر علی نے تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔

وزیر خزانہ نے ایٹمی توانائی کے لئے 20 ارب 8 کروڑ 20 لاکھ سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 2 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ شاہدہ اختر علی نے تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔وزیر خزانہ نے پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے 2ارب 25 کروڑ 69 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر ایک کٹوتی کی تحریک جمع تھی جو عالیہ کامران نے پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔وزیر خزانہ نے نیا پاکستان ہائوسنگ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کیلئے 1 ارب 58 کروڑ 75 لاکھ روپے سے زائد کے مطالبہ زر پیش کیا جس پر عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔

وزیر خزانہ نے وزیراعظم آفس انٹرنل کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 85 کروڑ 77 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 2 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے وزیراعظم آفس پبلک کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 89 کروڑ 65 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 5 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔

شاہدہ بیگم نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 90 کروڑ 82 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 4 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ نثار احمد نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی ۔ وزیر خزانہ نے سرمایہ کاری بورڈ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 80 کروڑ 61 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 6 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ علی محمد خان نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔

وزیر خزانہ نے وزیراعظم معائنہ کمیشن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 15 کروڑ 30 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 1 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ وزیر خزانہ نے سپیشل ٹیکنالوجی زون اتھارٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 78 کروڑ 31 لاکھ 85 ہزار روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 3 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں ۔ عمیر نیازی نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے نیشنل اینٹی منی لانڈرنگ اینڈ کائونٹر فنانسنگ ٹیررزم اتھارٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 20 کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 6 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔

خواجہ شیراز محمود نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے کینابس کنٹرول اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 20 کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 2 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ ریاض فتیانہ نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 9 ارب 81 کروڑ 41 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 4 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ رائے حسن نواز نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 1 ارب 37 کروڑ 65 لاکھ روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 7 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔

وزیر خزانہ نے نیشنل سکول آف پبلک پالیسی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 3 ارب 39 کروڑ 10 لاکھ سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 2 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ علی محمد خان نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے سول سروسز اکیڈمی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 2 ارب 2 لاکھ 83 ہزار روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 2 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے شعبہ نیشنل سکیورٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 24 کروڑ 6 لاکھ 18 ہزار روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی کوئی تحاریک جمع نہیں کرائی گئی تھیں۔ سپیکر نے یہ مطالبہ زر منظوری کیلئے پیش کیا جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔

وزیر خزانہ نے مشترکہ مفادات کونسل سیکرٹریٹ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 11 کروڑ 39 لاکھ 37 ہزار روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 4 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کاری کونسل ڈویژن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 34 کروڑ سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا۔ عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے انٹیلی جنس بیورو کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 19 ارب 12 کروڑ 9 لاکھ 93 ہزار روپے سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی کوئی تحریک جمع نہیں کرائی گئی تھیں۔ سپیکر نے ایوان سے اس کی منظوری لی۔

وزیر خزانہ نے شعبہ کابینہ کے ترقیاتی اخراجات پورے کرنے کیلئے 7 کروڑ 2 لاکھ 50 ہزار سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 4 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے سرمایہ کاری بورڈ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 1 ارب 10 کروڑ 54 لاکھ 30 ہزار سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی ایک تحریک جمع کرائی گئی تھیں۔ عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے سپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 13 کروڑ 82 لاکھ 80 ہزار سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی ایک تحریک جمع کرائی گئی تھیں۔ ع

الیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 49 کروڑ 53 لاکھ 59 ہزار سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 2 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ شاہدہ بیگم نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے سپارکو کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 5 ار ب 41 کروڑ 85 لاکھ 23 ہزار سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 2 تحاریک جمع کرائی گئی تھیں۔ خرم منور منج نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کاری کونسل ڈویژن کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 50 کروڑ 33 لاکھ 82 ہزار سے زائد کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی 1 تحریک جمع کرائی گئی تھی ۔

عالیہ کامران نے کٹوتی کی تحریک پیش کی جس کی وزیر خزانہ نے مخالفت کی۔ وزیر خزانہ نے ایٹمی توانائی کی ترقی پر مصارف سرمایہ کے اخراجات پورے کرنے کیلئے 76 کروڑ ایک لاکھ روپے کا مطالبہ زر پیش کیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی کوئی تحریک جمع نہیں کرائی گئی تھی جس کی سپیکر نے ایوان سے منظوری لے لی۔ کابینہ کٹوتی کی تحاریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے زرتاج گل،شفقت اعوان،شہزادہ گستاسپ خان، ڈاکٹر امجد علی، اقبال آفریدی،نثار جٹ،جمشید دستی،ثناء اللہ مستی خیل،ریاض فتیانہ اوردیگر نے کہا کہ 84 رکنی کابینہ ہے جو وزیر یا وزیر مملکت نہیں وہ اپنی گاڑیوں پر فلیگ لگائے ہوئے ہیں جس کے وہ اہل نہیں ہیں، اس کا نوٹس لیا جائے۔ وزارتوں اور اس کے محکموں کی کارکردگی کو مدنظر رکھ کر فنڈز مختص کئے جائیں، پسماندہ علاقوں کو ترجیح دے کر دیگر علاقوں کے برابر لایا جائے، کاشتکاروں کو سہولت دی جائے، سیلولر کمپنیوں کی خراب سروس کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر کمپنیوں کو مواقع دیئے جائیں۔سیاحت کو فروغ دیا جائے۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے کابینہ ممبران کی تعداد پر اعتراض کیا گیا، آئین کے تحت کل تعداد مجلس شوری کا 11 فیصد ہے جو 46 بنتی ہے جبکہ اس وقت 42 ہے، خصوصی معاون 9 ہیں، یہ کابینہ کا حصہ نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک سنبھالا تو ملک کے ڈیفالٹ ہونے کی بات ہو رہی تھی، آج تمام معاشی اشاریے بہتری اور تیزی سے ترقی کی نشاندہی کررہے ہیں، میری ٹائم، انرجی کے شعبے میں بہتری لائی گئی، زرعی شعبہ کو بہتر بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ معدنیات کو فروغ دیا جا رہا ہے، دنیا نے پاکستان کی عسکری صلاحیتوں کو مانا ہے، ہمیں دفاعی اعتبار سے بھارت کے مقابلہ میں کمزور سمجھا رہا تھا لیکن جس طرح فیلڈ مارشل عاصم منیر، وزیر اعظم شہباز شریف نے منہ توڑ جواب بھارت کو دیا وہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

این آئی ایف سی نے بیرون ملک سے سرمایہ کاری لانے کے راستے میں رکاوٹیں دور کی ہیں۔این ڈی ایم اے کے کام کو عالمی شراکت داروں نے سراہا ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکز اور صوبوں میں انفراسٹرکچر کے لئے ایس ڈی جیز اورسیپ پروگرام جاری ہیں۔انہوں نے بتایا کہ نیا پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی کو مرحلہ وار ختم کیا جارہا ہے۔اس نے پانچ منصوبے شروع کئے تھے لیکن ایک بھی مکمل نہیں کیاگیا۔

انہوں نے کہا کہ مختلف شعبوں میں نمایاں کارکردگی پر سول ایوارڈز دیئے جاتے ہیں ناموں کو انتخاب میرٹ پر کمیٹی کے ذریعے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اقدامات سے پاکستان میں سیاحت کو فروغ مل رہا ہے، یہ ایک صوبائی معاملہ ہے۔ڈپٹی سپیکر نے اس کے بعد کٹوتی کی تحاریک پیش کیں جنہیں ایوان نے کثرت رائے سے مسترد کرتے ہوئے کابینہ ڈویژن کے مطالبات زر کی منظوری دے دی۔