اسلام آباد۔15اپریل (اے پی پی):ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شیخ سہیل احمد نے قومی خبر رساں ادارے (اے پی پی)میں ایک ارب 24 کروڑ روپے کے فراڈ کیس میں ملزمان کے خلاف اندراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ منگل کو عدالت نے سماعت کی ۔اس موقع پر اے پی پی کے لیگل ایڈوائزر نذیر سلطان میکن ،خرم ابراہیم بیگ اور دیگر پیش ہوئے اورموقف اختیارکیاکہ ایسوسی ایٹڈپریس آف پاکستان (اے پی پی ) ایک سرکاری ادارہ ہے جس میں ایک ارب 24 کروڑ روپے خورد برد کئے گئے ہیں ،مقدمہ کےاندراج کے لئے 6ماہ سے ایف آئی اے میں درخواست زیر سماعت ہے تاہم اس پر ایف آئی اے کارروائی کرنے سے گریزاں ہے، استدعا ہے کہ ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے احکامات دئیے جائیں ۔ایف آئی اے کے نائب کورٹ چوہدری شفیق نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے تفتیشی آفیسر ملک ساجد نے جواب جمع کرا دیا ہے اور کہا ہے کہ دو ہفتوں تک تفتیش مکمل کر لیں گے۔
دوران سماعت فاضل جج نے ریمارکس دئیےکہ اے پی پی انتظامیہ نے ریکارڈ پر مشتمل درخواست جمع کرائی ہے جس میں سیلری سلپ ،آڈٹ رپورٹ ،بینک ریکارڈ اوردیگر ثبوت فراہم کئے گئے ہیں ۔دوران سماعت ملزم ارشد مجید چوہدری اور غواث خان کی جانب سے ذوالفقار عباس نقوی جبکہ قاسم گجر کی جانب سے چوہدری نعیم علی گجر عدالت میں پیش ہوئے ۔دوران سماعت فاصل جج نے استفسار کیا کہ ملزم معظم جاوید کی جانب سے کون پیش ہوا ہے جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ان کا وکیل تیمور اسلم سپریم کورٹ میں مصروف ہے اور پیش نہیں ہو سکتے۔ دوران سماعت فاضل جج شیخ سہیل احمد نے استفسار کیا کہ کیا ایف آئی اے نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کو سوال نامے پیش کئے ہیں جس پر اے پی پی کے لیگل آفیسر رفاقت شاہ نے بتایا کہ ہمارا ادارہ اے پی پی پانچ مرتبہ ریکارڈ جمع کرا چکا ہے
تاہم ایف آئی اے نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا۔عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔یادرہے کہ عدالت میں دائر پٹیشن کے مطابق بے ضابطگیوں سے متعلق اطلاعات سامنے آنے پر اے پی پی انتظامیہ نے ایک ارب 24 کروڑ روپے خوردبرد کی تحقیقات کیلئے 24 جون 2024 میں محکمانہ انکوائری کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں وسیع پیمانے پر مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا جس میں ملازمین سے متعلق اخراجات (ERE) اور پراویڈنٹ فنڈ (PF) اکاؤنٹس سے فنڈز کا غلط استعمال بھی شامل ہے۔ریکارڈ کے مطابق کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزارت اطلاعات و نشریات کو پیش کی جس میں اس کیس کو مزید قانونی کارروائی کے لئے قومی احتساب بیورو (نیب) یا وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو بھیجنے کی سفارش کی گئی۔
کمیٹی رپورٹ کے مطابق سرکاری خبر رساں ادارے کے ای آر ای اور پی ایف اکاؤنٹس سے 1.24 ارب روپے کا غبن کیا گیا ۔یہ غبن غیر مجاز لین دین، اختیارات کے غلط استعمال اور مالیاتی قوانین کی خلاف ورزی کے ذریعے کیا گیا۔دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ مالیاتی ریکارڈ جان بوجھ کر اے پی پی انتظامیہ کی دسترس سے دور رکھا گیا اور بینک عملے کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اہم مالی دستاویزات بشمول کیش بک، تنخواہ/پنشن کی کریڈٹ شیٹس، اور 2021 سے 2023 کے ماسٹر لیجرز غائب ہیں۔ ان ریکارڈز کو مبینہ طور پر سابق ذمہ داران نےضائع کیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہےکہ اے پی پی کے بعض حکام کے ذاتی بینک اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے غیر قانونی طور پر منتقل کئے گئے۔جن کے ناقابل تردید ثبوت بینک اسٹیٹمنٹس کی صورت میں موجود ہیں۔
دستیاب ریکارڈ کے مطابق ایک اہلکار نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں 4.7 ملین روپے منتقل کیے، جبکہ دوسرے پر ERE اکاؤنٹ سے 15.4 ملین روپے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کا الزام ہے۔دائر پٹیشن کے مطابق فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے ذاتی کھاتوں میں پراویڈنٹ فنڈز کی غیر قانونی منتقلی کا بھی پردہ چاک کیا۔ پی ایف اکاؤنٹ سے مجموعی طور پر 910.4 ملین روپے کا غبن کیا گیا، فنڈز بغیر اجازت کے مختلف ذاتی اکاؤنٹس میں بھیجے گئے۔ کمیٹی نے 16 اہم ملزمان کی نشاندہی کی جو اس سکینڈل میں ملوث ہیں۔ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں حکام کو سفارش کی کہ وہ ملزمان کے خلاف مکمل تحقیقات اور قانونی کارروائی کے لئے کیس نیب یا ایف آئی اے کو بھجوائیں۔ کمیٹی نے چوری شدہ رقوم کی وصولی کے لئے ملزمان کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کی تفصیلی جانچ پڑتال کی بھی سفارش کی۔
رپورٹ میں مستقبل میں دھوکہ دہی کو روکنے کے لئے اہم عہدوں کے لئے سخت مالیاتی کنٹرول اور مناسب ریفرنس کے طریقہ کار کی سفارش کی گئی ہے ۔عدالت میں دائر پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ محکمانہ انکوائری میں لوٹ مار ثابت ہونے اور تمام شواہد سامنے آنے کے باوجودایف آئی اے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی سے گریزاں ہے جس کے باعث انصاف کے حصول کے لئے اے پی پی انتظامیہ کو ایف آئی آر کے اندراج کے لیے عدالت سے رجوع کرنا پڑا ہے۔دائر درخواست میں ڈی جی ایف آئی اے اور تفتیشی آفیسر سمیت دیگر افراد کو فریق بنایا گیا ہے ۔
Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=582292