”مالی ایمرجنسی ” کے آرٹیکل میں درپیش اقتصاد ی چیلنجز کو بڑھا چڑھا کر اورمعاشی استحکام کو کم تر ظاہر کیا گیا، خزانہ ڈویژن کی وضاحت

143
وزارت خزانہپانچ ہزار روپے کے کرنسی نوٹ پر پابندی سے متعلق سوشل میڈیا پر زیرگردش نوٹیفکیشن جعلی اور غلط ہے، ترجمان وزارت خزانہ

اسلام آباد۔25ستمبر (اے پی پی):خزانہ ڈویژن نے وضاحت کی ہے کہ روزنامہ ”دی نیوز” میں ”مالی ایمرجنسی ” کے عنوان سے شائع ہونے والے ڈاکٹر فرخ سلیم کے آرٹیکل میں ملک کو درپیش معاشی چیلنجز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جبکہ اس کی معاشی استحکام کو کم تر ظاہر کیا گیا ہے جو حقیقت کے برعکس ہے۔

اتوار کو وزارت خزانہ کی طرف سے جاری بیان مین کہا گیا ہے کہ مضمون نگار نے اپنے خیالات اور آرا کو پیش کرنے کے لئے مختلف چنیدہ اقتصادی اشاریوں کا استعمال کیا ہے۔ خاص طور پر، اس مضمون میں ناکافی معلومات، اور مبالغہ آرائی پر مبنی پہلو سے بیرونی شعبے کے چیلنجوں کی منظر کشی کرتے ہوئے اس امرکو نظر انداز کر دیا ہے کہ بہت سی ابھرتی ہوئی مارکیٹ کی معیشتیں بھی اسی طرح کے چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔

عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ اور امریکی ڈالر کی مضبوطی نے بیرونی شعبے پر دبائو بڑھایا ہے جس کا مصنف نے اپنی رائے میں تذکرہ ہی نہیں کیا ۔ مصنف نے اپنے نکات کو مدلل بنانے کے لیے نئے اور قدرے پرانے اعدادوشمار کا ایک آمیزہ استعمال کیا ہے۔ مثال کے طور پر، اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین فارن ایکسچینج ریزرو کے اعدادوشمار(8.3ارب ڈالر)کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے بعد درآمدی اعدادوشمار کا تذکرہ سرسری انداز میں کردیا گیا، حالیہ مہینوں میں درآمدات میں کمی کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا ۔

اسی طرح، حسابات جاریہ کے خسارے کے مالی سال 22 کے17 بلین ڈالر کے اعدادوشمار کو مالی بہا ئوکی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے استعمال کیا ہے، اور اس بات کا ذکر ہی نہیں کیا کہ مالی سال23 کے لیے اسی خسارے کو ملکی اور غیر ملکی تجزیہ کاروں کے مالی شعبہ کے بین الاقوامی ماہرین نے تقریبا 9-10 بلین ڈالر کا تخمینہ لگایا ہے، جومجموعی مالیاتی خسارے میں 7 ارب ڈالر سے زائد کی کمی کی نوید دے رہے ہیں۔

مضمون میں بیرونی کھاتوں(درآمدی ادائیگیوں، قرضوں کی ذمہ داریوں وغیرہ) کے صرف اخراج کا پہلووں کو پیش کیا گیا ہے جبکہ برآمدات کی حوصلہ افزا نمو، ترسیلات زر کی آمد کی مضبوطی، غیر ملکی سرمایہ کاری، اور مالی سال 23 میں متوقع آمد کو آسانی سے مکمل طور پر نظر انداز کردیا ہے ۔ واضح رہے کہ پاکستان کی برآمدات اور غیر ملکی ترسیلات زر سالانہ60 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ پاکستان نے ستمبر 2022 کے اوائل میں آئی ایم ایف کی توسیعی فنڈ سہولت کا ساتواں اور آٹھواں جائزہ کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔

یہ بیرونی شعبے کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے حکومت کے عزم اور پالیسی اقدامات پر اعتماد کی علامت ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے مطابق مالی سال 23 کے بعد متوقع زرمبادلہ کی آمد، نمایاں برآمدات اور ترسیلات زر کی آمد میں اعتدال جلد ہی بیرونی شعبے کے دبائو کو کم کر دے گا۔

حکومت کو یقین ہے کہ پاکستان نہ صرف اپنی فنانسنگ کی ضروریات کو پورا کرنے کی پوزیشن میں ہے بلکہ اگلے چند مہینوں میں اپنے فاریکس ریزرو کو 2 ماہ سے زیادہ کی درآمدات تک دوبارہ بنا سکتا ہے۔ آخر کار، حکومت بھی سخت مالیاتی نظم و ضبط پر عمل کرنے کے لیے پرعزم ہے اور مالی سال 23 کا مالیاتی خسارہ تباہ کن سیلاب سے پیدا ہونے والے معاشی چیلنجوں کے بعد بھی5 ٹریلین روپے سے نیچے رہنے کا امکان ہے۔ آرٹیکلز یہ دعوی کر کے ایک غیر ضروری خدشہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مالیاتی خسارہ 6 ٹریلین روپے ہو جائے گا۔