اسلام آباد۔27جنوری (اے پی پی):حمد ، نعت، غزل ،نظم، گیت ،قطعات سمیت ہر صنف سخن میں لوہا منوانے والے مظفر وارثی کا کل(اتوار 28 جنوری کو) یوم وفات منایا جائے گا۔مظفر وارثی دنیائے سخن کا ایک معتبر نام ہے جس نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔
مظفر وارثی 20 دسمبر 1933 کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ کے ہائی سکول سے حاصل کی۔1947 میں لاہور آ کر میٹرک کیا اور سٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم ہو گئے۔ مظفر وارثی کا شمار پاکستان کے نامور نعت خواں اور بہترین شاعروں میں ہوتا ہے۔1981ء میں انہیں ریڈیو پاکستان کی جانب سے بہترین نعت خواں کا ایوارڈ دیا گیا اور 1988میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔مظفر وارثی نے اپنی شاعری کا آغاز غزلوں، نظموں اور فلمی گیتوں سے کیا۔
بعد ازاں انہوں نے خود کو حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے مخصوص کر لیا۔ وہ بلاشبہ عہد جدید کے ان چند شاعروں میں سے ہیں جنہیں غیر ممالک میں بھی دلچسپی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر اور سوچ اپنے تمام تر رنگوں میں عیاں ہیں۔ ان کا ہر مجموعہ دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت اور دلکش ہے۔مظفر وارثی کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعوں میں الحمد، لاشریک، نورِ ازل، بابِ حرم، میرے اچھے رسول، دل سے درِ نبی تک، صاحب التاج اور غزلوں اور نظموں کے مجموعوں میں برف کی نائو، کھلے دریچے بند ہوا،راکھ کے ڈھیر میں پھول، لہجہ، تنہا تنہا گزری ہے، دیکھا جو تیرے کھا کے، حصار، ظلم نہ سہنا، لہو کی ہریال اور ستاروں کی آب جو شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ان کی خود نوشت سوانح ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ مظفر وارثی کا 28 جنوری 2011 جمعہ کے روز کو 77 سال کی عمر میں لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ مظفر وارثی کی برسی کے موقع پر علمی اور ادبی حلقوں کی جانب سے مختلف تقریبات منعقد کی جائیں گی۔