اسلام آباد۔15مئی (اے پی پی):اقلیتی مسائل پر اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر (UN Special Rapporteur) فرنینڈ ڈی ورینس نے جی 20 کے سری نگر میں طے شدہ اجلاس سے ایک ہفتہ قبل خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2019 میں بھارتی حکومت کی جانب سے اس کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کرنے کے بعد سے مقبوضہ خطے میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 22 تا 24 مئی کو سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے جی 20 اجلاس کے انعقاد سے بھارتی حکومت اس صورتحال کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے جسے بعض حلقوں نے فوجی قبضے کے طور پر بیان کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے چند ہفتے قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا تھا کہ کشمیر کے علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال تشویشناک ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹر نے پیر کو ایک بیان جاری کیا جس میں بڑے پیمانے پر حقوق کی خلاف ورزیوں کو بیان کیا گیا جن میں تشدد، ماورائے عدالت قتل، کشمیری مسلمانوں اور اقلیتوں کی سیاسی شمولیت کے حقوق سے انکار، جمہوری حقوق کی معطلی اور 6 اگست 2019 کو نئی دہلی سے براہ راست حکمرانی کے ساتھ بلدیاتی انتخابات شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہاں کی صورتحال اگر کچھ بھی ہے تو وہ جب سے میں نے اور اقوام متحدہ کے ساتھی آزاد ماہرین نے 2021 میں بھارتی حکومت کے ساتھ رابطہ کیا تھا اس سے کہیں زیادہ خراب ہو گئی ہے۔
اس کے بعد ہم نے سیاسی خودمختاری کے نقصان اور نئے ڈومیسائل رولز کے نفاذ اور دیگر قانون سازی پر اپنے شدید خدشات کا اظہار کیا جس سے سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی آبادیاتی ساخت تبدیل ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں سیاسی محرومی ہو سکتی ہے اور کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں کی سیاسی شرکت اور نمائندگی کی سطح کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے جو ان کے لسانی، ثقافتی اور مذہبی حقوق کو مجروح کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہر لحاظ سے زمین پر ایک جابرانہ اور بعض اوقات بنیادی حقوق کو ضبط کرنے کے ظالمانہ ماحول کو ظاہر کرتا ہوتا ہے۔ آزاد ماہر نے کہا کہ خطے کے باہر سے ہندوؤں کی نمایاں تعداد میں اس خطے میں منتقل ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جس سے جموں و کشمیر میں آبادی کے لحاظ سے ڈرامائی تبدیلیاں ہو رہی ہیں تاکہ مقامی کشمیریوں کو ان کی اپنی سرزمین پر محکوم رکھا جائے۔
ڈی ورینس کے مطابق جی 20 نادانستہ طور پر ایک ایسے وقت میں وہاں معمول کے تاثر کو حمایت فراہم کر رہا ہے جب وہاں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں، غیر قانونی اور من مانی گرفتاریاں، سیاسی ظلم و ستم، پابندیاں اور یہاں تک کہ آزاد میڈیا اور انسانی حقوق کے محافظوں پر دبائو بڑھتا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اعلامیہ کو ابھی بھی جی 20 جیسی تنظیموں کو برقرار رکھنا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کی صورتحال کی مذمت کی جانی چاہیے نہ کہ قالین کے نیچے دھکیلنا چاہیے اور اس اجلاس کے انعقاد کے ذریعے اسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ خصوصی نمائندے انسانی حقوق کونسل کے سپیشل پروسیجرش کا حصّہ ہیں جو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نظام میں آزاد ماہرین کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس کے ماہرین رضاکارانہ بنیادوں پر کام کرتے ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کا عملہ نہیں ہیں اور اپنے کام کی تنخواہ وصول نہیں کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی حکومت یا تنظیم کے ماتحت نہیں ہیں اور اپنی انفرادی حیثیت میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔