نیویارک۔23ستمبر (اے پی پی):نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام لانا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس سلسلے میں معاشی بحالی کا جامع منصوبہ زیر عمل ہے،انتخابات کے عمل میں معاونت حکومت کے اولین فرائض میں سے ایک ہے،ہم انتخابی عمل کی مدد اور حمایت کریں گے، اور ساتھ معاشی بحالی کے منصوبے پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کے موقع پر امریکی ہفتہ وار میگزین "نیوز ویک” کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے نشاندہی کی کہ نگراں حکومت کو معاشی عدم استحکام کی صورتحال پر گہری تشویش ہے،اس وقت یہ کافی حد تک قابو میں ہے۔یہ وہ چیز ہے جس کی ہم مکمل اور قانونی طور پر نگرانی کرتے ہیں، اور جب استحکام کی بات آتی ہے تو ہم اس حوالہ سے اقدامات اٹھانے کے ذمہ دار ہیں۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک افغانستان کی ڈی فیکٹو حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا، لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس پورے خطے کے بارے میں ایک وسیع نقطہ نظر ہےلیکن یہ روزمرہ کے واقعات بعض اوقات ہمارے تعلقات کو خراب اور پیچیدہ بنا دیتے ہیں لیکن ہم اسے اس طریقے سے منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو دونوں کے لئے باہمی طور پر فائدہ مند ہو۔
جنوبی ایشیائی خطے میں امریکی توجہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں وزیر اعظم کاکڑ نے کہا کہ ایک پاکستانی اور اس خطے سے آنے والے کسی فرد کی حیثیت سے وہ بہت حیران ہوں گے کہ اس خطے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے یا اگر یہ امریکہ کی کم توجہ کا مستحق ہےکیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں اصل میں بہت سی چیزیں ہو رہی تھیں۔اس خطے میں تقریباً 3 سے 4 ارب کی آبادی رہتی ہے۔ 4 ارب لوگوں کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ تقریباً نصف انسانیت وہاں رہتی ہے۔
وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ان علاقوں میں ممکنہ تنازعات ہیں۔ میری جانب سے تنازعہ کشمیر کا ذکر نہ کرنا بہت بخل کی بات ہو گی، کیونکہ یہ دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ ہے۔ یہ سوچنے کی ضرورت ہےکہ یورپی براعظم پر اس کے کس قسم کے مضمرات ہوں گے؟ پورے کرہ ارض پر شمالی امریکہ اور باقی حصوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
وزیر اعظم نے جنوبی چین کے گرد ایک علاقائی طاقت کے گھیراؤ کے ذریعے مغربی نصف کرہ کی پوری نام نہاد "انڈو پیسیفک” پالیسی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس حوالے سے ہونی والی تمام پیش رفت کی نگرانی کر رہے ہیں۔نام نہاد انڈو پیسیفک حکمت عملی ان مقاصد کے لیے کی گئی ہے جو مغربی طاقتوں کے لیے موزوں ہیں۔اس لیےتشویش کا عنصر ہے اور پاکستانی جانب سے احتیاط کا ایک جائز احساس ہے، اور ہم اس کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں اور ہم اس طرح کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے اپنی تیاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔